حال ہی میں ہزاروں کی تعداد میں بھارتی خواتین نے ملک کی 24 ریاستوں کے 200 اضلاع میں دس ہزار کلومیٹر طویل ایک لانگ مارچ کیا، جس کا مقصد ریپ کے خلاف آگہی اور شعور بیدار کرنا تھا۔
دا ڈگنٹی مارچ‘ کے نام سے اس واک کا آغاز گزشتہ برس دسمبر میں ممبئی سے ہوا، جس کا اختتام جمعہ 15 فروری کو ہوا، اس واک نے پورے برصغیر میں جنسی استحصال کا شکار ہونے والی خواتین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔'
اس واک میں ان خواتین کے ساتھ ان کے اہلخانہ، سرگرم کارکنوں، سیاستدانوں، وکلا، پولیس اور اداکاروں نے بھی شرکت کی۔
اس تاریخی واک کے ذریعے جنسی استحصال کا شکار ہونے والے افراد کو شرمندہ کرنے اور انہیں الزام دینے کے کلچر پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی، جس کی وجہ سے اکثر اوقات مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ دوسری جانب اس واک کے ذریعے جنسی استحصال کا شکار ہونے والی خواتین اور بچوں کو انصاف کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
ریپ ایک ایسا جرم ہے جو بھارت میں زیادہ تر رپورٹ نہیں ہوتا، بلکہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 90 سے 95 فیصد ریپ کیسز کی رپورٹ درج نہیں کروائی جاتی۔
پورے بھارت میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جرائم میں مجرموں کو سزا ملنے کی شرح بھی بے انتہا کم ہے، جرائم کے حوالے سے 2016 میں ریکارڈ کیے گئے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ایک عشرے کے دوران ایسے صرف 18.9 فیصد افراد کو ہی سزا مل سکی۔ دوسری جانب دیگر تمام جرائم میں سزا ملنے کی شرح 47 فیصد ہے۔
‘خواتین کے حقوق کے حوالے سے سرگرم بھارتی وکیل دیویا سری نواسن نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا، 'ہم جنسی استحصال کے حوالے سے معاشرے کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے مارچ کر رہے ہیں۔
'ان کا کہنا تھا: 'جنسی استحصال کے متاثرین کو یا تو خاموش کروا دیا جاتا ہے، یا ان کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، انہیں ڈرایا، دھمکایا جاتا ہے یا پھر انہیں عدالت سے باہر مصالحت کرنے یا کیس سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
‘دیویا کے مطابق: 'کلاس، ذات پات، مذہب یا جسمانی معذوری کے لحاظ سے الگ تھلگ کی گئی خواتین کو تو اور زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد میں ایک ایسے ہی ایونٹ میں شرکت کی تھی، جو ڈگنٹی مارچ کے روٹ میں شامل تھا۔
دیویا کے مطابق: ’بہت سی متاثرہ خواتین نے اپنی کہانیاں شیئر کیں اور بتایا کہ کس طرح ریپ کے بعد انہیں معاشرے سے الگ تھلگ کردیا ‘گیا، عدالتی اور طبی نظام کے ساتھ ان کا تجربہ کیسا رہا اور کس طرح ان تمام سسٹمز نے مل کر ان کے خلاف کام کیا‘۔
انہوں نے بتایا: 'زیادہ تر کیسز میں یہ خواتین انصاف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ حاضرین میں شامل بہت سے لوگ یہ داستانیں سن ‘کر رو رہے تھے، لیکن بہت سے لوگ ان کی حمایت میں بھی نعرے بلند کر رہے تھے، وہاں بہت توانائی اور مثبت ردعمل دیکھنے کو ملا'۔
دیویا سری نواسن، جو لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'ایکوالٹی ناؤ' کی جنوبی ایشیاء برانچ کے لیے کام کرتی ہیں، اس حوالے سے پر امید ہیں کہ اس ایونٹ کو مزید بڑے پیمانے پر دوبارہ منعقد کیا جائے گا۔
ایک خاتون نے اپنی بیٹی کی داستان بیان کی، جسے ریپ کے بعد پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر غلط برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
دیویا کے مطابق: ’ایک خاتون، جن کی بیٹی کا ریپ ہوا ہو اور جب وہ پولیس میں رپورٹ درج کروانے جائے تو پولیس مجرم کے ساتھ مل ‘جائے اور اسے رشوت کی پیشکش کرے تاکہ وہ یہ معاملہ باہر ہی سیٹل کرلیں، لیکن ان خاتون نے کہا کہ نہیں، مجھے انصاف چاہیے‘۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے پھر شاید خود ہی رشوت لے لی اور کیس کی تفتیش کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے اس کیس کو آگے نہیں بڑھایا اور اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس لڑکی کی ماں بہت زیادہ غصے میں تھی۔
دیویا نے اس بات پر زور دیا کہ جنسی استحصال اور تشدد کی روک تھام کے لیے موجودہ قوانین پر بہتر طریقے سے عمل درآمد اور ایک حساس اور قابل گرفت پولیس فورس کی اشد ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ میڈیکو لیگل ایگزامینیشن کے لیے گائیڈ لائنز پر بہتر طریقے سے عمل درآمد کروایا جائے، خصوصاً لڑکیوں کا کنوارپن جانچنے کے لیے ٹو فنگر ٹیسٹ کے خاتمے کے حوالے سے، جس میں ایک معالج، انہدام نہانی میں دو انگلیاں ‘دال کر اس بات کی جانچ کرتا ہے کہ آیا ہائمن پھٹا ہوا تو نہیں ہے اور یہ کہ خاتون جنسی عمل کی عادی تو نہیں۔
یہ عمل غیر سائنسی، مضر اور کسی خاتون یا لڑکی کے بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اس عمل (ٹو فنگر ٹیسٹ) پر بھارت کی سپریم کورٹ نے 2013 میں پابندی عائد کردی تھی اور اس بارے میں جاری کردہ گائیڈ لائنز میں واضح کیا گیا تھا کہ جنسی تشدد کے کیسز میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھی اس بات کو جانچنے کے لیے یہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے کہ جنسی تشدد کی متاثرین، سیکس (جنسی عمل) کی عادی تو نہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ریپ کیسز میں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
دیویا نے بتایا کہ خواتین کے اس مارچ کو مقامی اور قومی پریس میں بہت کوریج ملی اور وہ جمعے کو دہلی میں ہونے والی مرکزی تقریب میں بھی ضرور شرکت کریں گی، جس میں پانچ ہزار کے قریب لوگوں کی شرکت متوقع ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لانگ مارچ کے ہر مرحلے پر مقامی این جی اوز کے ساتھ مل کر ایونٹس کا انعقاد کیا گیا تھا، جبکہ کچھ اضلاع میں تو سکولوں، پولیس اور ڈاکٹروں کے ساتھ بھی ایونٹ منعقد کیے گئے۔
اس مارچ کا ایک مقصد جنسی استحصال کے لیے بچوں کی خرید و فروخت کے حوالےسے آگہی بیدار کرنا بھی تھا۔ 2016 کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو سٹیٹسٹکس کے مطابق بھارت میں ہیومن ٹریفکنگ کے 15،379 متاثرین میں سے 58.7 فیصد بچے تھے۔ ایکولیٹی ناؤ کے مطابق ان میں سے زیادہ تر بچوں کو جنسی استحصال کے لیے سمگل کیا گیا۔
کاشی بائی نامی ایک خاتون، جن کی بیٹی ظلم کا شکار ہوئی، نے بتایا، ’ہم اکیلے ہیں، یہاں کوئی ایسا نہیں ہے جو غریبوں کا ساتھ دے۔ میری بیٹی کے ساتھ یہ کرنے والا ایک پنڈٹ اور ایک طاقتور انسان تھا۔ یہ سارا پیسے کا کھیل ہے۔ اس نے پولیس کو بھی خرید لیا۔ پورا گاؤں اس کے خلاف کچھ بھی بولنے سے خوفزدہ ہے۔ میں یہ جنگ اکیلے لڑ رہی ہوں‘۔
'جنسی تشدد کا سامنا کرنے والی ایک اور خاتون نے بتایا، 'ایک حوصلہ دینے والے مجمعے کے ساتھ خود پر بیتے ظلم کی داستان شیئر کرنے سے میری ہمت بڑھی ہے اور خوف اور پریشانی پر قابو پانے کے لیے میری عزت نفس میں اضافہ ہوا ہے۔