ملائیشیا کے بادشاہ سلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ نے منگل کو کہا ہے کہ وہ جلد ہی اگلے وزیراعظم کا انتخاب کریں گے، لیکن انہوں نے اپنے فیصلے کے لیے وقت کی وضاحت نہیں کی۔
ملائیشیا میں انتخابات کے تیسرے دن بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا، جس کے بعد ملک سیاسی بحران کا شکار ہو گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہفتے کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی، جس میں وزیراعظم کے عہدے کے دو اہم دعویداروں میں سے کوئی بھی حکومت بنانے کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکا۔
یہ دعوے دار حزبِ اختلاف کے رہنما انور ابراہیم اور سابق وزیراعظم محی الدین یاسین ہیں۔
ان انتخابات نے ملائیشیا میں سیاسی عدم استحکام کو طول دے دیا ہے، جن کے چند برس کے اندر اندر ملک میں تین وزرائے اعظم رہ چکے ہیں اور معاشی بحالی کے لیے درکار پالیسی فیصلوں میں تاخیر کا خطرہ ہے۔
موجودہ باریسن قومی اتحاد نے کہا کہ وہ کسی بھی امیدوار کی حمایت نہیں کرے گا۔ ان کے اس اعلان نے انور اور محی الدین دونوں کو اکثریت تک پہنچنے سے روک دیا ہے۔
ملائیشیا میں بادشاہ بڑی حد تک رسمی کردار ادا کرتا ہے، لیکن اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کسی ایسے امیدوار کو وزیراعظم نامزد کر دیں، جس کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں ہوں کہ وہ اکثریت حاصل کر سکتا ہے ۔
بادشاہ نے قومی محل کے باہر نامہ نگاروں سے کہا کہ ’میں جلد ہی فیصلہ کر لوں گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے ملائیشیا کے عوام سے بھی کہا کہ وہ حکومت سازی کے بارے میں کسی بھی فیصلے کو قبول کریں۔
بادشاہ نے سیاسی جماعتوں کو منگل کو دوپہر دو بجے تک اکثریت کے لیے ضروری اتحادیوں کو اکٹھا کرنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کا وقت دیا تھا۔
غیر یقینی صورت حال نے کوالالمپور سٹاک مارکیٹ کو متاثر کیا ہے جو منگل کو دوسرے دن بھی گراوٹ کا شکار رہی۔ ایک اسلام پسند جماعت پی اے ایس اسلامسٹ پارٹی کی نمایاں کامیابی نے سرمایہ کاروں کے خوف میں اضافہ کر دیا ہے، خاص طور پر جوئے اور شراب نوشی سے متعلق پالیسیوں پر۔
اس جماعت کی انتخابی کامیابی نے کثیر الثقافتی ملک ملائیشیا میں خوف پیدا کر دیا ہے، جہاں نمایاں نسلی چینی اور نسلی ہندوستانی اقلیتیں دوسرے عقائد کی پیروی کرتی ہیں۔ پی اے ایس اسلامسٹ پارٹی شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہے۔
ملائیشیا کی پولیس نے ملک کے سوشل میڈیا صارفین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ تفرقہ انگیز انتخابات کے بعد نسل اور مذہب پر ’اشتعال انگیز‘ مواد پوسٹ کرنے سے گریز کریں۔
اقلیتی حکومت؟
انور کے ترقی پسند اتحاد اور محی الدین کے قدامت پسند مالائی مسلم اتحاد، جس میں اسلام پسند پارٹی شامل ہے، دونوں نے کہا ہے کہ انہیں اکثریت کی حمایت حاصل ہے، حالانکہ انہوں نے اپنے حمایتیوں کی نشان دہی نہیں کی۔
ملائیشیا کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے قانون کے لیکچرر نیک احمد کمال نیک محمود نے کہا کہ ’اقلیتی حکومت قائم کی جا سکتی ہے یا بادشاہ وزیراعظم کے لیے ان کے انتخاب کو سننے کے لیے قانون سازوں سے انفرادی طور پر ملاقات کرنے کو کہہ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’اگر اقلیتی حکومت کا تقرر کیا جاتا ہے، تو یہ مناسب ہے کہ نئی حکومت پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لے۔‘
ہفتے (19 نومبر) کو ہونے والے انتخابات میں انور کے اتحاد نے سب سے زیادہ 82 نشستیں حاصل کیں، جبکہ محی الدین کے بلاک نے 73 نشستیں حاصل کیں۔ انہیں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت یعنی 112 نشستوں کی ضرورت ہے۔
باریسن اتحاد نے صرف 30 نشستیں جیتیں جو اس کی بدترین انتخابی کارکردگی ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ یہ فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی کہ حکومت کون بنائے گا کیوں کہ انور اور محی الدین دونوں کو 112 کے ہندسے تک پہنچنے کے لیے اس کی حمایت کی ضرورت ہے۔