سیاحوں نے تھائی لینڈ سے بائی روڈ ملائیشیا کا سفر کرنا تھا۔ لگژری مسافر گاڑی میں ہم دو پاکستانی دوستوں کے علاوہ مغربی ممالک کے درجن بھر جوڑے سوار ہوئے۔ گوریوں کو اتنا قریب پا کر حیا کے پتلے ہم دو درویشوں کے دل میں لمبی مسافت سے کچھ لطف اٹھانے کی خواہش نے انگڑائی لی مگرحیا سے عاری گوری چمڑی والے اپنے اپنے ساتھی میں گم تھے۔
آخر ہمارے دوست نے زچ ہو کر کہا ’ کچھ ہنگامہ چاہیے خان جی، سفر ہی ہے، سفرِ آخرت تو نہیں‘ اور پھر خوب ہنگامہ ہوا۔
گاڑی بنکاک سے نکل کر کھلی جگہ پر آئی تو ہم نے سیٹ سے اٹھ کر بسوں میں دوائیں بیچنے والے نیم حکیموں کی طرح سیاحوں سے خطاب کیا کہ ’ساتھیو، ہمسفرو! ہم سب اس دنیا میں مسافرانِ چند روزہ ہیں، پس سفریاد گارہونا چاہیے، زندگی کا ہو یا لاری کا۔‘
گوری چمڑی والا تو ویسے ہی بے باک ہے اورہلہ گلہ کرنے کا شوقین بھی، سو انہیں یہ دعوت پسند آ گئی اور وہ اپنے اپنے ساتھی کی ذات سے نکل کرگاڑی کے اجتماعی دھارے میں آنے کو تیار ہو گئے۔ پہلے ہم عاجزوں نے اپنا اور ملکِ نیک کا تعارف کرایا۔ قومی وقار کی خاطر وطن عزیز کی ترقی، مضبوط معیشت اور خوشحالی سے متعلق خاصی بڑھا چڑھا کر ڈینگیں ماری گئیں۔
یہ نائن الیون سے پہلے کا دور تھا اور ولایتی سیاحوں کا جنرل نالج کمزور تھا۔ وہ ہمارے ہر جھوٹ سے متاثر ہوتے گئے۔ پھر اہلِ مغرب اپنا اپنا تعارف کراکے جو کُھلے تو بے تکلفی کی آنچ پراجنبیت کی ساری برف پگھل گئی۔ پاکستانی آوارہ گرد اورمغربی سیاح آپس میں شیر و شکر ہوتے چلے گئے۔ باہم بغل گیریاں، ہنسی مذاق، شرارتیں اور نٹ کھٹیاں شروع ہو گئیں۔ سیاہی مائل تھائی ڈرائیور کا نام بہت مشکل تھا۔ ہم نے اس کا نام شوکت رکھ دیا، جو اس نے بخوشی قبول کیا۔ گوریاں ترنگ میں آکراسے مسٹر شوکت کہہ کے چھیڑتیں تو کمبخت کپڑوں سے باہر ہو جاتا اور گردن پیچھے گھما کر اپنے بندر جیسے دانتوں کی نمائش کر کے کہتا، ’می شوکت، می شوکت۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسے جنت نظیرماحول میں ہم حاتم طائیوں نے سیاحوں میں فروٹ بھی تقسیم کیا۔ جب ہماری خوب دھاک بیٹھ گئی تو ہمیں رہبری کی ’فطری خواہش‘ نے آ لیا۔ ہمارے دوست نے کسی منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح اپنے پرجوش خطاب میں ہمسفروں سے کہا کہ ہم دونوں آپ کے خادم ہیں، پس جسے بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو، وہ بلاجھجک ہم سے رجوع کرے۔ گورے بخوشی ہماری رہبری کی چھاؤں میں آ بیٹھے۔ خدا معاف کرے، اس کے بعد کے سفرمیں ہماری لیڈری کے جھانسے میں آ کر کسی نے مرغ کی آواز نکالی، کسی نے گانا سنایا اور کسی نے مجرا کیا۔ ایک گوری نے تو چلتی بس کی چھت سے اُلٹا لٹک کر بھی ہم سے شاباش وصول کی۔
دو برگزیدہ رہنماؤں کی ولولہ انگیز قیادت میں زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور سفر جاری تھا کہ اچانک ملائیشیا کی سرحد آ گئی۔ امیگریشن آفس سے ایک باوردی آفیسر نکلا اور نہایت شائستگی سے بولا کہ ’آپ لوگ گاڑی ہی میں تشریف رکھیں اور مجھے اپنے اپنے پاسپورٹ دے دیں، میں انٹری کی مہریں لگا کر واپس آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔‘
قافلے کے دونوں ہر دلعزیز لیڈروں نے سب کے پاسپورٹ اکٹھے کیے اور آفیسر کو دیتے ہوئے تحکمانہ لہجے میں کہا ’ذراجلدی آنا، ہمیں دور جانا ہے‘ تاہم اس نے دیر لگائی اورگوروں کو تشویش ہوئی توہم نے انہیں تسلی دی کہ فکر کی کوئی بات نہیں، ہم ہیں ناں!‘
اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ وہی آفیسر دو عدد سبز پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑے تیزی سے آ رہا ہے۔ آتے ہی کرخت لہجے میں گویا ہوا، ’یہ پاسپورٹ کس کے ہیں؟‘
ہم نیکوکاروں کا پہلے گوریوں کے جھرمٹ میں ایمان خطرے میں تھا اور اب آفیسر کے ہاتھوں عزت۔ کم بخت غیرمسلموں کے سامنے اپنے دونوں اسلامی بھائیوں سے درشت لہجے میں بولا، ’پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تم دوپاکستانی مسافر بھی سوارہو؟ اب نیچے اترواور اپنا سامان نکال کر امیگریشن آفس کے اندر چلو۔‘
بس میں سکوت سا چھا گیا۔ شوقِ سیاحت کے مارے ہر دو مسافرانِ چند روزہ اپنا رختِ سفر اٹھائے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے چوروں کی طرح بھاری قدموں سے اندرچل دیے۔ دفتر میں سامان کی تفصیلی تلاشی کے بعد سوال و جواب کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب بس چل رہا تھا، نہ بس چل رہی تھی۔ گھنٹے بھرکی ’عزت افزائی‘ کے بعد دونوں سالارِ قافلہ کلیئر ہو کر واپس آئے تو’عوام‘ سے آنکھ ملانے کے قابل نہ تھے۔
رہی سہی کسر اس بے مروت آفیسر نے گوروں سے معذرت کرتے ہوئے یہ کہہ کر نکال دی کہ ان دو مشکوک پاکستانی مسافروں کی وجہ سے آپ کو زحمت اٹھانا پڑی، ورنہ ہم تو اپنے معزز مہمانوں کو چند منٹوں میں کلیئر کر دیتے ہیں۔
اگرچہ ہم نے گوروں کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں بتایا کہ امیگریشن کے اعلیٰ حکام ہمیں مستقل اپنے وطن میں ٹھہرانے پر بضد تھے تاکہ ان کے ملک میں قیادت کا بحران حل ہو سکے، اسی لیے بمیں دیر ہوئی۔ گورے کو توہم پھر سے بے وقوف بنالیتے مگر اپنوں نے مروادیا تھا۔ امیگریشن آفیسرکی طرف سے ہمارے لیٹ ہونے کی جامع وضاحت کے بعد فقیروں کی ذات اور بات میں کوئی وزن نہ رہاتھا، سو جو تھوڑی دیرپہلے لیڈر تھے، اب پناہ گزینوں جیسی صورت لیے اپنی اپنی سیٹوں میں دبک گئے۔ برف پھر سے جم گئی۔ اخلاق باختہ مغربی جوڑے دوبارہ اپنے اپنے ساتھی میں گم ہو گئے۔
بندر جیسے دانتوں والے ڈرائیور نے بھی شوکت سے تبدیل کر کے اپنا سابقہ اونٹ پٹانگ سا نام رکھنے کا اعلان کر دیا۔ گوروں کی نظروں کا طنزسہنے کی ہم میں ہمت نہ تھی، لہٰذا ہر دو برگزیدہ ہستیوں نے باقی کا سفران سے آنکھیں چُرا کر طے کیا۔ حتیٰ کہ سمندرپار کرنے کی غرض سے گاڑیوں کو فیری میں سوار کیا گیا تو بھیگی شب کے اس دلفریب ماحول میں بھی جب سنگاپور اور خیرہ کن ملائیشیا کے جزیرہ پیناگ کے برقی قمقمے سمندرکے پانی میں جھلمل کرتے جادوئی منظر پیش کر رہے تھے، سمندر کا سکوت طاری رہا۔ فیری کے ایک کونے میں ریلنگ پکڑے سبز پاسپورٹ کی بے توقیری پر ہمارے آنسو سمندر کے پانی میں اضافہ کرتے چلے گئے۔
یہ پرانی کتھا آج اس لیے یاد آئی ہے کہ ہینلے پاسپورٹ انڈکس نے 2020کے لیے 107ممالک کے پاسپورٹ کی نئی درجہ بندی کی ہے۔ ہماری ایٹمی طاقت مسلسل تیسرے برس بھی 104درجے پر ہے۔ سبز پاسپورٹ کی اس عزت افزائی میں صومالیہ 104 نمبر پر ہمارا ہم پلہ ہے، جبکہ ہمارے نیچے دنیا کے بد ترین پاسپورٹ صرف تین ممالک عراق، افغانستان اور شام کے ہیں۔ ادھر وزیراعظم کہتے ہیں کہ کسی کو اندازہ نہیں، پاکستان عظیم ملک بننے جا رہا ہے۔
جناب وزیراعظم، یقیناً آپ پاکستان کوعظیم تربنا کر ہی دم لیں گے، مگر ہماری فریاد یہ ہے ہم دو پاکستانی آوارہ گرد آج بھی ملائیشیا کی سرحد پراسی بس میں سوار ہیں۔ ذلت کا احساس ہمیں گاڑی سے اترنے نہیں دیتا۔ ملائیشیا کے امیگریشن آفس کے سامنے ہماراسفر آج بھی اسی طرح رکا ہوا ہے، جیسے محمد علی جناح کی رحلت کے بعد وسیع النظر سماج کے قیام کی جانب اس بدنصیب قوم کا سفر رک گیا تھا۔ آپ ملک کوعظیم سے عظیم تر بنائیے مگرخدا را ہم دومسافرانِ خستہ کو ملائشیا کے بارڈر پر اس بس سے اتارنے کی بھی کچھ سبیل کیجیے کہ نئے سال میں بھی پاسپورٹ انڈکس میں سبز پاسپورٹ نیچے 107ویں نمبر پر اسی استتقامت کے ساتھ کھڑا ہے کہ زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد۔