اس کالم کو مصنف کی آواز میں سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
اسرائیل حکومت سازی کے لیے مشاورت کے مرحلے میں ہے۔ یہ سامنے نظر آ رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں اتحادیوں کے ذریعے ملنے والی حالیہ اکثریت کے نتیجے میں نتن یاہو کو چھٹی بار وزیر اعظم بننے کا اعزاز اور اختیار ملا چاہتا ہے۔
یہ نتن یاہو کے لیے محض حکومت و اقتدار نہیں ہو گا بلکہ اسرائیل کی پارلیمانی لانڈری کے ذریعے نتن یاہو کا کرپشن کے الزامات میں لتھڑا ہوا کردار بھی دھل کر پاک صاف اور پوتر بنا دینے کی ایک سہولت ہو گی۔
اس سلسلے میں توقع کی جا رہی ہے کہ نئے قوانین بنیں گے جو نتن یاہو کے خلاف مقدمات کے خاتمے کا ذریعہ بن جائیں گے۔ یہ تجربہ دنیا میں ’جمہوری واردات‘ سے اقتدار میں آنے والوں کے لیے نیا نہیں ہے، جانا پہچانا راستہ ہے، بلکہ کہنا چاہیے بعض جمہوریت پسندوں کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
مگر یہ کھیل صرف حکمرانوں، حکمران جماعتوں اور حکمران طبقے یا بااختیار شخصیات کے لیے خاص ہے۔ ایسا ہی کچھ کھیل پاکستان میں بھی کسی حد تک دیکھا جا چکا ہے۔ اس سلسلے میں مزید کھیل کھیلے جانے کی تیاری جاری ہے۔ یہی کام نتن یاہو کے حق میں بھی کرنے کے لیے ان کی پارلیمنٹ راضی ہے۔ ’پارلیمنٹ راضی تو کیا کرے گا قاضی۔‘
نتن یاہو کو مقدمات کی زد میں آنے سے بچانے کے لیے پہلی آواز یاہو کے اتحادیوں کی طرف سے آئی ہے۔ انتہا پسند اتحادی بے تاب ہیں کہ وہ اپنے چھٹی بار وزیراعظم بننے کے قریب پہنچے قائد کو کرپشن کے الزامات سے بذریعہ پارلیمان پاک کریں۔
تاہم اس پارلیمانی لانڈری سے یقینی طور پر گزرنے کے لیے اور چھٹی بار وزارت عظمیٰ اپنے نام کرنے لیے نتن یاہو کو فلسطینیوں کو کچل ڈالنے اور فلسطین کو یہودیانے کی تدریجی حکمت عملی کو تدریجی گیئر سے نکالنا ہو گا۔ براہ راست چوتھے گیئر میں ڈالنے کے لیے اتحادیوں کو ان کی پسند کی وزارتیں دینا ہوں گی۔ اتحادی حکومتوں میں اس طرح کی ’ڈیل‘ ہونا بھی نئی بات نہیں ہے۔
گویا نتن یاہو جو کام ارض فلسطین، فلسطینیوں اور مسجد اقصیٰ کے خلاف پہلے اپنے ہاتھوں سے خود کرنے کا عزم و ارادہ کیے ہوا تھا اب وہ کام کرنے کا سہرا اتحادی جماعتوں اور ان کی انتہا پسند قیادت کے سر بھی بندھے گا۔ 73 سالہ نتن یاہو کے لیے یہ مہنگا سودا اس لیے بھی نہیں ہے کہ چھٹی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش اس کے سوا شاید ہی کسی صورت پوری ہو سکتی ہو۔ اس لیے بار بار وزیر اعظم بننے کا ’اعزاز‘ پانے کے لیے تو بیرونی طاقتوں کے ساتھ بھی ’ڈیل‘ کرنا پڑے تو ’جائز‘ ہو گا۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور دیگر انتہا پسند یہودی جماعتوں کو باہم مل کر جو اکثریت حاصل ہوئی ہے اس میں جیتنے والا ہر رکن یا جیتنے والی ہر رکن اپنی مثال نہیں رکھتی گویا کہا جا سکتا ہے یہودی انتہا پسندانہ ایجنڈے کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اتحادی جماعتوں کی پسندیدہ وزارتوں میں تعلیم، صحت اور بہبود عوام طرز کی کوئی وزارت شامل نہیں ہے۔
سبھی اتحادی جماعتوں کے قائدین کی نظریں تین وزارتوں، دفاع، داخلہ اور وزارت خزانہ پر مرکوز ہیں۔ اسرائیل کی انتہا پسند جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی اور حکومت سازی کی ترجیحات میں 1960 کی دہائی سے یہی تین وزارتیں اہم تر سمجھی جاتی رہی ہیں۔ اُس زمانے میں بننے والے سیاسی اتحاد بھی باہم انہی چیزوں کے لیے اتحادی تعاون کے فیصلے کرتے تھے اور ہر جیت کر آنے والی جماعت یا شخصیت کے لیے کشش رکھنے والی یہی تین وزارتیں ہوتی تھیں۔
نتن یاہو کے اتحادیوں میں تاریخی شہر الخلیل کی مسجد ابراہیمی میں خونی دہشت گردی کی واردات [1991] کرنے والے اسرائیلی رہنما اور ربی میر کہانے کے پیروکاروں اور عقیدت مندوں کی بڑی تعداد ہے۔ یہ ’میر کہانے‘ اسرائیلی پارلیمنٹ کا رکن بھی تھا اور امریکی شہری بھی۔ اس کے باوجود اس کی جماعت اور اس کے پیروکاروں کو امریکہ نے کسی بھی طرح دہشت گردی کے درجے سے کم پر نہیں سمجھا تھا۔ مجبورا پابندی لگانا پڑی۔ تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ جو بائیڈن حکومت نے اس پابندی کے خاتمے کے بارے میں ابتدائی غور پچھلے سال مئی میں ہی کر لیا تھا۔
چھٹی بار اسرائیلی وزارت عظمیٰ کے منصب کے قریب تر نتن یاہو کے دیگر اتحادیوں میں چند دیگر ناموں کا ذکر کیا جائے تو بتسلئیل سموتریتش، ایتمار بن گویر، آری دری، آفی ماعوز، اعوج کوھین، میثال الدلیغیر، اوفرپیونہ، او ریت ستروک، لی مور بین ھار گویا ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔
سموتریتش فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے میں باضابطہ ماخوذ رہ چکا ہے۔ یقیناً اس سے اسرائیلی وزارت دفاع کا زیادہ مستحق کون ہو سکتا ہے؟ اس لیے پہلے دن سے ہی اس نے اسی وزارت پر ’فوکس‘ کیا ہوا ہے۔ سموتریتش اسرائیلی قابض فوج کی تشکیل اور اس کے اجزائے ترکیبی ہی نہیں اس کے اہداف اور انداز کو خوب سمجھتا ہے، اس لیے وزارت دفاع سنبھال کر اسرائیلی قبضہ آگے بڑھانے اور فلسطینیوں کو ارض فلسطین سے بے دخل کرنے کا کام وہ اپنے دہشت گردانہ پس منظر کی وجہ سے زیادہ ننگے پن کے ساتھ کرنے کا داعیہ رکھتا ہے۔
سموتریتش وزارت دفاع کے راستے اسرائیلی فوج پر اس لیے بھی غلبے کی خواہش رکھتا ہے کہ اسرائیل کو اگرچہ مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوریت کہلانے کا دعویٰ ہے۔ وہیں یہ اکلوتی اور منفرد جمہوریت ہے جو اسرائیلی فوج کے گلی محلوں میں استعمال کے پہیوں پر ہی چلتی ہے۔ یوں اسرائیلی جمہوریت ڈیموکریسی کم، ریسو کریسی، تھیا کریسی ، ایتھنو کریسی اور ملٹری کریسی کا ملغوبہ ہونے کی وجہ سے ایک ہمہ وقت کی فوجی اور غیر اعلانیہ ’مارشل لائزڈ ڈیموکریسی‘ ہے۔
سموتریتش کو ایک لالچ یہ بھی ہے کہ امریکہ جس نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے ’انروا‘ کے فنڈز پر قدغن لگا رکھا ہے۔ وہ امریکہ، اسرائیلی قابض فوج کو سالانہ بنیادوں پر ملنے والی تین سے ساڑھے تین ارب ڈالر والی امداد میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ بلکہ فلسطینیوں پر اندھا دھند گولیاں چلانے والی اسرائیلی فوج کے لیے امریکہ کی یہ اندھی عنایات جاری رہیں گی۔ تو پھر کیوں نہ سموتریتش بھی اپنی جھولی بھرنے کا بھرپور موقع پائے۔ خصوصا جب پارلیمانی لانڈری بھی اپنے کنٹرول میں ہو گی۔
ایتمار بن گویر وزارت داخلہ کے حصول کو اپنی اولین ترجیح ظاہر کرنے کے لیے مشہور ہے۔ گویر پولیس کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہوئے میڈیا کے ساتھ روابط قائم کرنے کا آرزو مند ہے تاکہ اپنی شخصیت کو مستقبل میں وزارت عظمیٰ کے لیے تیار کر سکے۔
بن گویر اسی صورت پولیس اور دیگر فوسرز کو فلسطینیوں کے خلاف بے رحمانہ بروئے کار لا سکتا ہے کہ وزارت داخلہ اس کے ہاتھ میں آئے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل کے ساتھ جبری الحاق کا اعلان بھی اسی طور ممکن بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل کے ساتھ جبری الحاق کرنا نئی متوقع اسرائیلی حکومت کے اہم ترین خوابوں میں سے ایک ہے۔ جس مغربی کنارے پر 1948 کے تین فیصد قبضے کو 43 فیصد تک کرنے میں اسرائیل کامیاب ہو چکا ہے۔ وہ اسے کلی طور پر اپنے قبضے میں کیوں نہ کرے۔
اسرائیل کو اس بات کی بھی بڑی امید ہے کہ اس طرح اپنے سرپرست اعلیٰ امریکہ اور اس کے بڑوں کے ساتھ براہ راست قربت کا بھی ایک اور راستہ کھل جائے گا۔ متبادل وزارت کے طور پر بھی اگر یہ انتہا پسند یہودی دیکھتے ہیں تو وہ وزارت خزانہ سے کم نہیں ہے۔
نتن یاہو کا ایک اور انتہا پسند اور نسبتاً بڑا اتحادی ’ربی آری دری‘ ہے۔ وزارتوں کے حصول کی بھاگ دوڑ میں وہ قدرے چپکا بیٹھا ہوا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کی ساری توجہ فی الحال اپنے کاروباری معاملات پر اس لیے مرکوز ہے اس کی خواہش بس ایک مرتبہ پھر وزیر بننے کی ہے۔ وزارت کوئی بھی مل جائے، قبول ہے۔
نتن یاہو کی حکومت کے لیے اب تک جو اہداف اتحادیوں کے خیالات، ایجنڈے اور مشاورتوں میں اہم تر قرار دیے جا رہے ہیں ان کا بنیادی نکتہ ارض فلسطین پر کامل اسرائیلی قبضہ، اسے یہودیانے کی مہم تیز کرنا۔ مسجد اقصیٰ سمیت دیگر مقدس مقامات کو یہودیانے اور مزعومہ یہودی معبد ہیکل سلیمانی کی مہم کو عملی شکل میں ڈھالنا۔ ناجائز یہودی بستیوں کو وسعت دیتے چلے جانا اور فلسطینیوں کے گھروں و دیگر املاک کو مسمار کرنے کی جاری مہم کو نکتہ عروج پر پہنچانا ہے۔ تاکہ فلسطینیوں کی آبادی کم کی جا سکے اور یہودیوں کی بڑھائی جا سکے۔ ایک مکمل ’ڈیمو گرافیکل چینج۔‘
اسرائیل کی سابقہ حکومتوں اور انتہا پسندی کی بدترین مثال بننے والی اس متوقع حکومت کے ارادوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ کہنے میں چنداں مبالغہ نہیں ہو گا کہ عالمی برادری اور اداروں کا اسرائیل کے بارے میں معاملہ مسٹیکن آئیڈنٹی والا رہا ہے۔
لیکن معاملہ اس طرح کا بالکل نہیں رہا ہے جو پاکستانی صحافی مرحوم ارشد شریف کے حوالے سے کینیا کی پولیس نے ظاہر کیا ہے۔ اسرائیل کی شناخت میں مغالطہ عالمی طاقتوں نے شروع سے آج تک شعوری طور پر دنیا میں پھیلایا۔ اس سلسلے میں عالمی تنظیموں و اداروں نے بھی اپنا حصہ خوب ڈالا اور اسرائیل کے بارے میں جھوٹا تعارف (mistaken identity) مارکیٹ کیا ہے۔
کم از کم اقوام متحدہ، بین الاقوامی عدالت انصاف، جوہری توانائی کا عالمی ادارہ اور اس طرح کے دیگر ادارے تو پہلے دن سے اسرائیل کو خوب جانتے تھے، سمجھتے تھے، پہچانتے تھے، یہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ یہ عالمی طاقتوں کے بعد انہی کا تو بچہ تھا۔ اس لیے اسے مسٹیکن آئیڈنٹی اور مسٹیکن امپریشن کے ساتھ آگے بڑھاتے رہے۔
اقوام متحدہ کا یہ جرم اس لیے سنگین تر ہے کہ یہ کوئی بدنیت عالمی طاقت نہیں سب سے بڑا بین الاقوامی فورم تھا۔ اس کا معاملہ دوہرے معیار والا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کو اسرائیل کے بارے میں منظور تو کرایا کہ مگر ان ہر عمل درآمد کی کوئی صورت ممکن نہ بنائی۔ اسرائیل میں سامنے آنے والی سیاسی قیادت کو دیکھ کر تو لگتا ہے یہ فورم قراردادیں منظور کرانے والی اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی مشین کا کام کرتا رہا۔ عالمی طاقتوں کی تخلیق کردہ اسرائیلی ریاست کو اقوام متحدہ کی قراردادیں کھلونے کے طور پر بنا کر دی جاتی رہی ہیں۔ وہ ان سے کھیلتا رہا رہے اور انہیں توڑ توڑ کر خوش ہوتا رہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے ایک ستم تو انسانی ضمیر اور اعلیٰ انسانی قدروں پر اس صورت بھی ڈھایا گیا کہ 10 نومبر 1975 کو صیہونیت کے خلاف منظور کردہ اس قرارداد کو 16 دسمبر 1991 کو واپس لے لیا۔ جسےجنرل اسمبلی نے پوری شرح صدر کے ساتھ صیہونیت کو نسل پرستی کی ہی ایک شکل اور نسل پرستی کے مترادف قرار دیا تھا۔ لیکن اقوام متحدہ نے اس کے باوجود 1991 میں اپنی اس قرارداد کو واپس لے لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل کی نئی متوقع حکومت اور اس کے فیصلہ سازوں، علانیہ ایجنڈے اور اسرائیلی پارلیمنٹ میں انتہا پسندی ودہشت گردی کی غالب نمائندگی کے بعد اقوام متحدہ کو کم از کم اتنا تو کرنا چاہیے کہ اپنی اسی پرانی قرارداد کو بحال کرنے کا اعلان کر دے۔ جسے 10 نومبر 1975 میں منظور کیا گیا تھا۔ دنیا کے 72 ملکوں نے اس قرارداد کے حق میں 35 نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا جبکہ 32 نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
بصورت دیگر اس حکومت اور اس میں موجودہ دہشت گردانہ عزائم رکھنے والی نمائندہ تنظیموں کے ہاتھوں دنیا کا امن بالعموم اور مشرق وسطیٰ کا امن بطور خاص تباہ و برباد ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ مسجد اقصیٰ اور ارض فلسطین کو یہودیانے کے لیے فلسطینیوں کا مزید خون بہا کر یا ان کا قتل عام کر کے بلا شبہ اسرائیل خطے میں امن کے بیج نہیں ڈالے گا۔
کیا یہ ممکن ہو گا کہ فلسطینی عربوں کے گھروں کے ملبے پر نئی یہودی بستیوں کی عمارت اٹھائی جا سکے۔ مسلمہ دو ریاستی حل کے مقبرے پر اسرائیلی ریاست کا جھنڈا گاڑ دے اور اس کے باوجود اسرائیل اور اس کے سرپرست ممالک یہ سمجھتے رہیں کہ سب نارمل ہو چکا ہے۔ یا اس کے بعد بھی سب 'نارملائزڈ' رہے گا۔ خطے کو نارمل رہنے دینے یا نہ رہنے دینے کا فیصلہ اسرائیل کی کابینہ کے ارکان کے ناموں کے علاوہ اس پر عالمی طاقتوں کے رد عمل سے جڑا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ا نڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔