خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیر میں ایک خاتون کے مسافر وین میں بچے کو جنم دینے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں ضلعے کے سرکاری ہسپتال پر ایمبولیس فراہم نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
مذکورہ ویڈیو اسی وین میں سوار ایک مسافر نے بنائی، جن کا دعویٰ تھا کہ حاملہ ’خاتون درد سے تڑپ رہی تھیں لیکن ایمبولیسن نہ پہنچی‘۔
ویڈیو میں حاملہ خاتون کو وین کی سیٹ پر لیٹے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ ویڈیو بنانے والا شخص کہہ رہا ہے کہ ’ضلعی ہسپتال اپر دیر کی انتظامیہ نے خاتون کو تیمر گرہ لے جانے کا کہہ دیا، لیکن ایمبولینس فراہم نہیں کی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس واقعے کے حوالے سے ریسکیو 1122 کے ترجمان شاہ ولی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ضلعی ہسپتال میں اس مریض کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
شاہ ولی نے بتایا کہ کسی مریض کو دوسرے ہسپتال بھیجنے کا ایک طریقہ کار موجود ہے، جس میں ایمبولینس کی فراہمی شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حاملہ خاتون کے تیماردار کے پاس ’ہسپتال کا ریفرل فارم موجود ہے، نہ ہسپتال میں اس مریض کا کوئی ریکارڈ‘ ہے۔
’خاتون ایک نجی کلینک گئی تھیں‘
اس حوالے سے اپر دیر کے ضلعی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر صاحبزادہ امتیاز احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے، تاہم ابتدائی معلومات سے ثابت ہوا ہے کہ مذکورہ خاتون کو ضلعی ہسپتال نہیں لایا گیا تھا۔
ڈاکٹر امتیاز نے بتایا کہ ’خاتون کو ایک نجی کلینک لے جایا گیا تھا۔ ہسپتال کے سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈیلیوری کیسز کے ریکارڈ میں بھی مذکورہ خاتون کا ذکر موجود نہیں ہے۔‘
مقامی صحافی ناصر زادہ نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خاتون کو ایک نجی ہسپتال لے جائے جانے کی تصدیق کی، جہاں سے انہیں تیمرگرہ کے ضلعی ہسپتال بھیجا گیا۔
ناصر زادہ نے بتایا کہ نجی ہسپتال کے مطابق انہوں نے ریسکیو دفتر کو اطلاع دی تھی لیکن ان کو بتایا گیا کہ ریسکیو کی ایمبولنس کو صرف سرکاری ہسپتال سے مریض کو شفٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اپر دیر کے ضلعی ہسپتال میں زچہ بچہ کا ماہر ڈاکٹر موجود ہی نہیں ہے، اور اسی وجہ سے ڈیلیوری کیسز کو تیمرگرہ کے ضلعی ہسپتال بھیجا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپر دیر کے ضلعی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر صاحبزادہ امتیاز احمد نے زچہ بچہ ماہر ڈاکٹر کی عدم دستیابی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں 18 شعبہ جات میں صرف چار کے لیے ماہر ڈاکٹر موجود ہیں۔
ڈاکٹر امیتاز نے بتایا: ’گائنی سمیت آنکھوں کے ماہر، دل کے امراض، ای این ٹی، اور جلد کے امراض کے ماہرین کی پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں گائنی کیسز ماہر نرسوں کے زیر نگرانی کیے جاتے ہیں، اور پیچیدگی کی صورت ماہر ڈاکٹڑ کو بلایا یا مریض کو دوسرے ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے۔
اپر دیر کی مجموعی آبادی 2017 کے مردم شماری کے مطابق نو لاکھ 48 ہزار سے زیاد ہے اور یہ ضلع مجموعی طور پر ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد گھرانوں پر مشتمل ہے۔
ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال اپر دیر اس ضلعے کا سب سے بڑا ہسپتال ہے جہاں پر ضلع بھر سے مریض آتے ہیں، تاہم ناصر زادہ کے مطابق ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر مریضوں کو قریبی لوئر دیر کے تیمرگرہ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔
ہسپتال میں گائنی سمیت دیگر شعبہ جات کی ماہر ڈاکٹروں کی کمی کے حوالے سے صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا سے رابطہ کیا گیا لیکن انھو ںے سے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔