احتجاجی سیاست میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد عمران خان کو ایک فیس سیونگ کی تلاش تھی۔ اسمبلیوں سے نکلنے کا مبہم اعلان اسی فیس سیونگ کی تلاش کی ایک ناکام اور غیر سنجیدہ کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
احتجاجی تحریک مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ یہ تضادات اور فکری افلاس کا ایک نوحہ تھا جو سر بازار کہا گیا۔ نہ کوئی منصوبہ بندی تھی نہ تیاری تھی ، نہ زاد راہ پاس تھا نہ کسی متبادل پر غور کیا گیا۔
کسی جنگجو کے سے بانکپن سے امریکہ تک کو للکارتے ہوئے حقیقی آزادی مارچ شروع ہوا اور فرماں بردار بچے کی طرح ایک ڈپٹی کمشنر کی 56 شرائط تسلیم کر کے جلسہ عام کر کے اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
شعیب بن عزیز نے کہا تھا: اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
حقیقی آزادی مارچ ایک نوحے کے سوا کچھ نہیں۔ خونی انقلاب کے رجز پڑھنے والے اسلام آباد میں داخل ہی نہ ہو سکے اور اچھے بچے بن کر فیض آباد ہی سے لوٹ گئے۔ باقی سب کہانیاں ہیں، خلاصہ اتنا سا ہے کہ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔
فیس سیونگ کی یہ کوشش بھی اچھے بھلے سنجیدہ آدمی کو گدگدادینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیے گئے۔ اسمبلیاں توڑنے کی سمری نہیں بھیجی گئی۔ صرف یہ کہا گیا کہ ہم ایسا کر دیں گے۔ کوئی پوچھے کہ عالی جاہ کب کر دیں گے؟
غلطی ہائے مضامین کے کمالات دیکھیے۔ لاہور سے چلے اور پورے ملک سے کارکنان کو جمع کیا اور اعلان کیا کیا؟ صرف یہ کہ ہم ایسا کر دیں گے۔ کیا ہی بہتر ہوتا پنجاب کے وزیر اعلیٰ دائیں جانب کھڑے ہوتے اور کے پی کے وزیر اعلیٰ بائیں طرف، پھر اعلان ہوتا کہ میرے وزرائے اعلیٰ نے آئین کے آرٹیکل 112 کے تحت گورنر کو اسمبلیاں تحیل کرنے کی سمری بھیج دی ہے اور اب ہم ان اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے۔
یہ ادھورا اعلان کہ ہم ایسا کر دیں گے، کارکنان کو واپس گھروں کو بھیجتے وقت دلاسے اور تسلی کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
راستے میں چونکہ بہت سے یو ٹرن بھی آتے ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ خود ہی وزرائے اعلی کے خلاف عدم اعتماد کروا دی جائے اور کہا جائے کہ اب آئین کے آرٹیکل 112 کے تحت عدم اعتماد ممکن نہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ چند روز بعد ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ اعلان بھی واپس لے لیا جائے جیسے پہلے بہت سارے اعلانات واپس لیے جا چکے۔
پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ وزیر اعلیٰ سمری بھیجے اور گورنر اس پر فوری عمل کر دے۔ جیسے صدر کے پاس وزیر اعظم کی سمری روکنے یا واپس بھیجنے کا اختیار ہے اسی طرح آرٹیکل 105 کے تحت وزیر اعلی کی طرف سے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھی گورنر 14 دن تک روک سکتا ہے اور پھر نظرثانی کے لیے واپس بھیج سکتا ہے۔
نظر ثانی کے بعد بھی اگر وہی سمری آئے تو اگر چہ اس پر عمل کا پابند ہے لیکن اس پر بھی وہ 10 دن لگا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس صورت میں نئی عبوری کابینہ گورنر ہی بنائے گا۔ کے پی کا گورنر جے یو آئی کا ہے اور پنجاب کا ن لیگ کا۔
یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ اپنی صوبائی حکومتوں کی حدود سے باہر آ کر جو رہنما احتجاج تک نہ کر سکے اور اس کا احتجاج اپنی عمل داری میں پنجاب کے شہر تک محدود رہے کیا وہ دو صوبوں کی حکومت چھوڑ دے گا؟
عالم اسباب میں یہ ممکن ہی نہیں ’روحونیات‘ کا معاملہ البتہ الگ ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کرنا ہوتیں تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے اس وقت سمری بھجوا دی ہوتی جب ان کی مرضی کی ایف آر درج نہیں ہو رہی تھی کہ ہمیں ایسی حکومت اور ایسے نظام کی کوئی ضرورت نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر جو وزیر اعلیٰ ان کی مرضی کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہونے دیتا کیا وہ ان کی خواہش پر اپنی وزارت اعلیٰ قربان کر دے گا؟ جو ایسا سمجھتا ہے وہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے پہلے کوئی اچھا سا نفسیاتی معالج تلاش کر لے۔
عمران خان ایک مقبول رہنما ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی حریف ان کی افتاد طبع ہے۔ وہ جمہوری اور آئینی دائرہ کار کے اندر رہ کر سیاست کریں تو آج بھی ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ قومی معاملات میں خیر کی قوت کے طور پر بروئے کار آ سکیں لیکن یہ مسلسل ہیجان اور مسلسل احتجاج نہ ملک کے لیے فائدہ مند ہے نہ خود تحریک انصاف کے لیے۔
اپنی حالیہ احتجاجی تحریک کا انجام ان کے سامنے ہے۔ وہ چاہیں تو اس سے بہت کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ سیاسی بحث کی بھول بھلیوں سے قطع نظر، یہ حقیقت ہے کہ ان کے لانگ مارچ میں لوگ اس طرح نہیں نکلے جیسے توقع کی جا رہی تھی۔ مسلسل احتجاج سے کارکن بھی بے زار ہو جاتا ہے۔
احتجاج سیاست کا لازمی جزو ہے لیکن محض احتجاج کا نام سیاست نہیں۔ ملکی معیشت اب ان چونچلوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اور ویسے بھی اب وہ زمانے نہیں رہے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔