مصر کے شہر شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کے زیرانتظام ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس تو لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کے اعلان کے ساتھ ختم ہو گئی لیکن ماہرین کے مطابق اس فنڈ سے متاثرہ ممالک کو کی جانے والی ادائیگی میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
سندھ میں حالیہ سیلاب سے شدید متاثرہ اضلاع میں ایک ضلع دادو کے جوہی تحصیل کے نواحی گاؤں خیرموری سے متصل گوٹھ ابراہیم چانڈیو کے رہائشی 10 بچوں کے والد عبدالطیف چانڈیو اپنے خاندان کے ساتھ گذشتہ تین مہینوں سے روڈ پر اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے ریلیف کیمپ میں مقیم ہیں۔
کچھ فاصلے پر واقع ان کا گاؤں شدید بارشوں کے ساڑھے تین مہینے گزرنے کے باجود تاحال زیر آب ہے۔
قدرتی آفات کے بعد بنیادی سہولتوں کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت بنائے جانے والے اس کیمپ میں تین مہینے سے سخت زندگی گزارتے ہوئے انہیں مچھروں کی بہتات، پینے کے صاف پانی کی قلت اور مختلف بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے بعد اب آنے والے دنوں میں سرد موسم کے بارے میں عبدالطیف چانڈیو سخت پریشان ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے عبدالطیف چانڈیو نے بتایا: ’چھوٹے چھوٹے بچے، حاملہ خواتین اور بزرگوں کی بڑے تعداد کیمپ میں مقیم ہیں، مگر ان کی کوئی مدد نہیں ہو سکی۔ مچھردانیاں، ادویات، صاف پانی اور خوراک نہ ملنے سے زندگی گزارنا کٹھن ہو گیا ہے۔ اب سردیاں آرہی ہیں۔ مجھے نہیں پتا اب کیا ہو گا۔‘
حالیہ سیلاب سے متاثر لوگوں میں عبدالطیف چانڈیو کا خاندان اکیلا نہیں ہے، سندھ حکومت کے مطابق صرف سندھ صوبے میں سیلاب کے باعث 20 لاکھ خاندانوں کے ایک کروڑ 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ شدید سیلاب کے باعث سات لاکھ 37 ہزار گھر مکمل طور پر تباہ، جب کہ 10 لاکھ گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ جس کے باعث سندھ میں 29 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے مطابق سندھ میں سیلاب کے دوران صرف صوبہ سندھ میں 16 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے سیلاب سمیت شدید قدرتی آفات کے بعد متاثر ہونے والے عبدالطیف چانڈیو جیسے غریب افراد کے لیے حالیہ دنوں بننے والے ’تباہی اور اس کے خمیازہ (لاس اینڈ ڈیمیجز) فنڈ‘ سے نئی امید جاگی ہے۔
مصر کے شہر شرم الشیخ میں حالیہ دنوں اقوام متحدہ کے زیرانتظام میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والی عالمی 'کانفرنس آف دی پارٹز' کے ستائیسویں اجلاس یا کوپ 27 یا سی او پی 27 کے دوران موسمیاتی تبدیل کے ذمہ دار ترقی پذیر ممالک موسمی تبدیلی سے متاثر ہونے والے غریب کو معاوضہ دینے کے لیے بننے والے تاریخی ’تباہی اور اس کے خمیازہ (لاس اینڈ ڈیمیجز) فنڈ‘ کے قیام پر اتفاق ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موسمیاتی تبدیلیوں کے متعلق مصرمیں ہونے والی حالیہ عالمی کانفرنس کوپ27 کے دوران تباہی اور اس کے خمیازے یا لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ بننے کے متعلق سلاب سے شدید متاثر صوبہ سندھ کے متاثرین کو علم ہی نہیں کہ ان کی مدد کے لیے کوئی ایسا فنڈ بھی بنایا گیا ہے۔
سیلاب متاثرین میں شامل عبدالطیف چانڈیو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ ایسا کوئی فنڈ بنا ہے اور نہ ہی اس فنڈ سے ہمیں ادائیگی کے لیے تاحال کسی حکومتی اہلکار نے یہاں آکر ہمارے کوائف اکٹھے کیے۔ ہمیں اس فنڈ کا کوئی علم نہیں۔‘
کوپ27 میں بننے والے نئے فنڈ سے عبدالطیف چانڈیو اور ان جیسے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ افراد کی مدد ہوسکے گی؟
جب یہ سوال سماجی تنظیم ایسوسی ایشن فار اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینو ایبل انرجی کے ڈائریکٹر علی اکبر راہموں سے کیا تو انہوں نے کہا: ’پہلی بات یہ تو کہ اس فنڈ کے قیام پر امیر ممالک مکمل طور پر راضی ہو کر اگر پیسے دینے کو تیار ہوجائیں۔ جس کے بعد یہ طے ہونا ہے کہ اس فنڈ سے پاکستان کو کیا ملے گا؟ اس کے بعد یہ رقم وفاق کو ملے گی پھر صوبوں کو۔ پھر صوبہ اس میں کیا بنانا چاہتا ہے؟ عبدالطیف چانڈیو جیسے افراد تک اس فنڈ کی رقم پہنچتی نظر نہیں آتی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے علی اکبر راہموں نے کہا کہ ’جب کوئی آفت آتی ہے تو غریب افراد ہی متاثر ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی امداد نہیں ہوتی اور جب اس عالمی فنڈ کی طرح کوئی رقم ملتی ہے تو رقم کی تقسیم کے لیے استعمال ہونے والے طبقاتی نظام میں یہ لوگ سب سے نیچے والے حصے میں نظر آتے ہیں۔‘
لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کی ادائیگی کب تک شروع ہو سکتی ہے؟
پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹرعابد قیوم سلہری کے مطابق ’اس نئے بننے والے ’تباہی اور اس کے خمیازہ (لاس اینڈ ڈیمیج) فنڈ‘ کے قیام میں بہت دیر ہوئی ہے، مگر اس کے باجود یہ خوش آئند ہے اور اس فنڈ کے قیام سے موسمی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کو ایک امید ملی ہے اب ان کو ماحولیاتی انصاف ملے گا۔ مگر اس فنڈ کے تحت غریب ممالک کو پیسے ملنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے بتایا: ’اس وقت امیر ممالک صرف اس فنڈ کے قیام پر راضی ہوئے ہیں۔ اس کے لیے پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا ہے کہ لاسز کیا ہیں اور ڈیمیجز کیا ہیں؟ دونوں الفاظ کے معنی کو لکھنا ہوگا۔ کل کوئی یہ دعویٰ کرے کہ موسمی تبدیلی سے آنے والی شدید بارش کے بعد وہ کام پر نہیں جاسکے اس لیے ان کی نوکری ختم ہوگئی اس لیے اس فنڈ سے ان کی مالی مدد کی جائے؟ تو کیا ایسا دعویٰ بھی اس فنڈ میں کور کیا جائے گا یا نہیں۔ یہ سب ابھی طے ہونا باقی ہے۔‘
’پھر ان لاس اور ڈیمیجز کے کتنے پیسے ہیں؟ کس کو ملنے ہیں؟ کتنے ملنے ہیں؟ اور سب سے اہم کہ کس نے ادا کرنے ہیں؟ یہ سب ابھی طے نہیں ہوا۔ یہ آنے والے برسوں میں طے ہوگا، جس کے بعد ہی ادائیگی کا کوئی امکان ہوسکتا ہے۔ مگر ابھی تو کچھ بھی نہیں۔‘
ان کے مطابق ’اس کے بعد یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ یہ رقوم کس کی طرف کس کو کس صورت میں ملیں گے؟ یہ کیش رقم ہوگی، منصوبے ہوں گے اور امیر ملک اس منصوبے کو رقم ادا کرے گا؟ ابھی اس فنڈ پر بہت لمبی بحث ہونی ہے۔ مگر جب تک فیصلہ آئے تب تک غریب ملک اپنا پریشر جاری رکھیں کہ ایسا نہ ہو اس پر فیصلہ آنے سے قبل امیر ممالک اس فنڈ سے مکر جائیں۔‘
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا مزید کہنا ہے کہ ’ایک اور خدشہ یہ بھی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ امیر ممالک کچھ وقت کے بعد دعویٰ کریں کہ انہوں نے غریب ممالک کو جو منصوبے ’تباہی اور اس کے خمیازہ (لاس اینڈ ڈیمیج) فنڈ‘ کے قیام سے قبل دیے ہیں ان کو بھی اس فنڈ کی مد میں سمجھا جائے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا پاکستان اس فنڈ کے قیام میں اپنے بڑے اہم کردار کا دعویٰ کر رہا ہے، اس میں کتنی صداقت ہے؟ جواب میں ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ ’پاکستان حکومت کے اس دعویٰ میں کسی حد تک صداقت ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ اس میں دو باتیں اہم تھیں، ایک تو اس بار پاکستان کے پاس حالیہ شدید سیلابوں کی صورت میں موسمیاتی تبدیلی کی انتہائی طاقتور مثال موجود تھی۔ دوسرا اس بار پاکستان جی 77 بلاک کی صدارت کرہا تھا تو اس دعویٰ میں کسی حد تک صداقت ہوسکتی ہے۔‘
(ایڈیٹنگ: فرخ عباس، محمد العاص)