سندھ کے ضلع خیرپور میں موسم سرما کے شروع ہوتے ہی سیلاب سے متاثرہ افراد خیمہ بستیوں میں ٹھنڈ کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
اگرچہ متاثرہ علاقوں میں پانی کے اترنے پر ریلیف کیمپوں سے عوام اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، تاہم بیشترعلاقوں میں اگست میں ہونے والی مون سون کی شدید بارشوں کے باعث جمع ہونے والا پانی تاحال مکمل طور پر نکالا نہیں جاسکا ہے۔
مہران ہائی وے پر واقع خیرپور کی تحصیل کوٹ ڈیجی میں تاریخی قلعے کے قریب واقع ٹینٹ سٹی میں اب بھی درجنوں مقامی افراد خیموں میں رہائش پذیر ہیں اور سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ان افراد کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ٹینٹ سٹی میں رہننے والے سکندر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرا تعلق مقامی دیہی علاقے آباد سے ہے، جہاں تاحال برسات کا پانی نکالا نہیں جا سکا۔ ان دنوں سردیوں کا موسم بھی شروع ہوچکا ہے، جو ہمارے لیے شدید پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’خیموں میں بچوں کے لیے گرم کپڑے تو درکنار موسم کے لحاظ سے بستر بھی نہیں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیموں میں رہنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ’بارشوں کے بعد میری ساس بھی جگر کے مرض میں مبتلا ہوگئی ہیں جبکہ میرا شوہر بھی پیروں کی الرجی کا شکار ہے۔
’معصوم بچوں کے ساتھ سردیوں میں ان خمیوں میں رہنا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ ہمیں سردیوں میں گرم کپڑوں کی اشد ضرورت ہے۔‘
خیمہ بستی کی رہنے والی ایک بزرگ خاتون مائی سوڈی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب ہمیں چار ماہ قبل خیموں میں رکھا گیا تو سرکاری سطح پر دیکھ بھال کی جا رہی تھی تاہم گذشتہ دو ماہ سے یہ سلسلہ ختم کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے آنے والے سردی کے دن پہاڑ جیسے معلوم ہو رہے ہیں۔‘
اس علاقے کے زمیندار غلام مرتضیٰ جسکانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’خیرپور کی تحصیل کوٹ ڈیجی کے بیشتر علاقے تاحال زیر آب ہیں۔ ہمارا گاؤں جسکانی شدید متاثر ہوا تھا۔‘
غلام مرتضیٰ جسکانی کے مطابق کوٹ ڈیجی سمیت دیگر علاقوں میں پانی کے قدرتی بہاؤ کا روٹ ہے، جسے لنگ کہا جاتا ہے لیکن آبادکاری اور رکاوٹوں نے بہاؤ کو متاثر کیا ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ بارشوں کا پانی نکاسی ہونے کے بجائے علاقوں میں کھڑا ہے۔‘