پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں نو مہینے قبل قانون سازی کے باوجود سرکاری جامعات میں عملی طور پر طلبہ یونینز بحال نہیں ہو پائی ہیں۔
سندھ پاکستان کا وہ پہلا صوبہ ہے جہاں سرکاری جامعات میں طلبہ یونینز کی بحالی سے متعلق قانون سازی کی گئی۔
پاکستان میں 2019 کے دوران سرکاری جامعات میں یونینز کی بحالی کے لیے طلبہ نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا تھا، جس میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں نہ صرف جامعات بلکہ شہروں میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔
احتجاجی طلبہ نے حکومت سے سابق فوجی آمر ضیاء الحق کے اقتدار کے دوران طلبہ یونینز پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
ملک بھر میں طلبہ احتجاج اور یونینز کی بحالی کے مطالبات کے باجود کسی صوبائی حکومت نے طلبہ یونینز پر پابندی کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔
تاہم سندھ ملک کا وہ پہلا صوبہ بنا، جہاں اس سال فروری میں صوبائی حکومت نے سرکاری جامعات میں یونینز کی بحالی سے متعلق ’سندھ سٹوڈنٹس یونین بل 2019‘ صوبائی اسمبلی کے سامنے پیش کیا، جسے بعد ازاں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والے مجوزہ قانون پر گورنر سندھ نے تین مارچ کو دستخط کیے تھے تاہم اب تک صوبے کی جامعات میں عملی طور پر طلبہ یونینز بحال نہیں ہو پائی ہیں۔
محمکہ بورڈز و جامعات سندھ کے ذرائع کے مطابق صوبے میں طلبہ یونین کی بحالی میں تاخیر کے باعث جامعات کے وائس چانسلرز ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ ’یونینز کے نام پر سیاسی جماعتیں تعلیمی اداروں میں گھس جائیں گی،‘ تاہم باضابطہ طور پر ابھی تک کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے طلبہ یونین کی بحالی سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کیا ہے۔
صوبے میں قانون سازی کے باجود طلبہ یونین کی بحالی میں تاخیر کی وجہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سیکریٹری جامعات محمد مرید راہموں سے رابطہ کیا، تاہم انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
یونینز کی بحالی کی حمایت کرنے والی ڈیموکریٹک یوتھ فرنٹ کی جنرل سیکریٹری نغمہ اقتدار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’ہمیں خوشی ہے کہ سندھ پہلا صوبہ ہے، جس نے طلبہ یونینز کی بحالی کا اعلان کیا، مگر اس سلسلے میں قانون سازی کے باجود طلبہ یونینز تاحال بحال نہیں ہوسکی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول نغمہ اقتدار: ’طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے تاحال ٹی او آرز بھی نہیں بن پائے، جبکہ متعلقہ قانون میں بھی کئی باتیں درست کرنا باقی ہیں، تاہم ان خرابیوں کے باجود ہم چاہتے ہیں کہ صوبے میں یونینز بحال ہوں، یونینز کے انتخابات ہوں۔ جب تک وائس چانسلرز نہیں چاہیں گے یونین سازی پر عمل در آمد نہیں ہو سکے گا۔‘
اسی طرح پروگریسیو یوتھ الائنس، کراچی یونیورسٹی یونٹ کی سابق جنرل سیکریٹری زینب سید کے مطابق طلبہ یونینز پر پابندی کسی پلیٹ فارم پر پابندی لگانا نہیں تھا، بلکہ کسی کے آئینی و جمہوری حقوق پر پابندی کے برابر تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’سندھ میں قانون سازی کے باوجود ابھی تک یونین سازی ہو نہیں سکی ہے اور نہ ہی یونینز کے انتخابات ہو سکے، جس کا مطلب ہے کہ صوبائی حکومت صرف یہ کریڈٹ لینا چاہتی تھی۔ صرف قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوتا، اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔‘
زینب سید نے سندھ حکومت سے فوری طور پر صوبے کی سرکاری جامعات میں یونینز کو عملی طور پر بحال کرکے انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا۔
اس معاملے پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سندھ حکومت نے طلبہ یونینز پر پابندی ہٹانے اور قانون سازی کا کام کردیا ہے، اب باقی کام جامعات کا ہے۔
’سندھ حکومت کا کام تھا کہ صوبے کی سرکاری جامعات میں طلبہ یونین پر دہائیوں سے عائد پابندی ہٹائے اور اس کے لیے قانون سازی کرے، تو وہ کام ہم نے کردیا ہے۔ اب تو جامعات کا کام ہے کہ وہ یونین کا قیام عمل میں لے آئیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’طلبہ گروپ بنا کر اپنے یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا رجسٹرار کو یونین کے قیام کی درخواست دیں تو یونین سازی شروع ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت کو جو کرنا تھا وہ ہم نے کردیا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کی بار بار کوششوں کے باوجود صوبائی وزیر بورڈز و جامعات اسماعیل راہو اور سیکریٹری بورڈز و جامعات محمد مرید راہموں سے اس سلسلے میں موقف حاصل نہیں ہو پایا۔