جامعہ کراچی کی اساتذہ انجمن کے مطابق جامعہ کو ملنے والی سرکاری گرانٹس کی عدم دستیابی اساتذہ اور دوسرے عملے کی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔
یونیورسٹی کے اساتذہ اور دوسرے عملے نے حکومتی گرانٹ کی تاخیر کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہوئے کلاسز اور امتحانات کا بائیکاٹ کیا۔
دوسری طرف سندھ حکومت نے گرانٹس کی عدم دستیابی کی بجائے جامعہ کی ناقص منصوبہ بندی کو عملے کی تنخواہوں میں تاخیر کی وجہ قرار دیا۔
کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کی کال پر جمعرات اور جمعے کو منائے جانے والے یوم سیاہ میں اساتذہ اور دوسرے عملے نے صبح اور شام کی شفٹوں میں تدریسی امور اور امتحانات کا بائیکاٹ کیا، اور گرانٹ کے اجرا میں مزید تاخیر کی صورت میں احتجاج جاری رکھنے کی دھمکی دی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے نائب صدر سید غفران عالم نے کہا کہ گرانٹ میں تاخیر کے باعث اساتذہ اور جامعہ کے دیگر عملے کو تنخواہیں بھی تاخیر سے دی جاتی ہیں اور ہر گزرتے مہینے کے ساتھ اس تاخیر میں طوالت آ رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ کی شام کی کلاسز کے بل گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری نہیں کیے گئے جبکہ گذشتہ چار مہینوں میں تین مرتبہ گرانٹ میں تاخیر کے باعث تنخواہیں دیر سے آئیں۔
'تنخواہ وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے اچھے اساتذہ دوسرے اداروں میں ملازمتیں اختیار کر سکتے ہیں، جس کا بے اندازہ نقصان جامعہ کو ہو گا۔'
کراچی یونیورسٹی کی گرانٹس
سید غفران عالم کے مطابق اس وقت جامعہ کراچی میں 750 مستقل اساتذہ، 200 وزٹنگ فیکلٹی ممبر اور 300 دیگر عملہ ہے، جبکہ تعلیمی ادارہ وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور صوبائی ہائیرایجوکیشن کمیشن کی گرانٹس کے علاوہ فیسوں کی مد میں حاصل ہونے والے محصولات پر چلتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ چند برسوں سے وفاقی و صوبائی ایچ ای سیز کی گرانٹس کے اجرا میں تاخیر ہو رہی ہے 'اور اب تو نوبت ماہوار گرانٹس پر پہنچ گئی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت حال میں جامعہ اپنی کوئی منصوبہ بندی نہیں کر سکتی کیونکہ ایسا صرف سالانہ بنیاد پر ملنے والی گرانٹ کی صورت میں ممکن ہوتا ہے۔
سید غفران نے کہا: 'فی الحال ہم نے احتجاج شروع کیا ہے اور اگر ہمیں گرانٹ کو وقت پر جاری کرانے کی یقین دہانی نہ کرائی گئی تو یہ طویل بھی ہو سکتا ہے۔
'گرانٹ کے جاری ہونے میں تاخیر کے باعث نہ صرف تنخواہوں کی ادائیگی میں دیر ہو رہی ہے بلکہ دیگر چھوٹے موٹے روز مرہ کے اخراجات کے لیے بھی انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ مختلف شعبوں کی لیبارٹریز میں کیمیکل خریدنے کے پیسے نہ ہونے کے باعث ان شعبوں میں معمول کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب سندھ حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ جامعہ کراچی میں تنخواہ اور دیگر اخراجات کے مسائل کا تعلق گرانٹ میں تاخیر کی بجائے غلط منصوبہ بندی ہے۔
سندھ حکومت کا موقف
وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وفاقی اور صوبائی ایچ ای سیز کی گرانٹس سالانہ ہوتی ہیں، جن کا مقصد صرف 'ان کائینڈ' سپورٹ ہے نہ کہ یونیورسٹی کو چلانا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'یونیورسٹی کو روزمرہ کے اخراجات اور تنخواہوں کی رقم خود فیسوں اور دیگر مدوں میں بنانا ہوتی ہے۔ یونیورسٹیز میں آمدن سے زیادہ اخراجات کے باعث مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
’ یونیورسٹیز فیسیں لیتی ہیں اور الحاق والے کالجز سے بھی انہیں خطیر رقوم ملتی ہیں۔'
جامعات میں بد انتظامی بری منصوبہ بندی کا ثبوت دیتے ہوئے حکومتی ترجمان نے کہا کہ چند سال قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے زیر سماعت ایک کیس میں ایک یونیورسٹی میں ساڑھے تین سو اضافی اساتذہ کی بھرتی ثابت ہوئی تھی۔
عبدالرشید چنا کا مزید کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کے سبکدوش ہونے والے اساتذہ اور دیگر عملے کی تعداد میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، جنہیں پینشن کی مد میں بھاری ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔
انہوں نے گرانٹ میں تاخیر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے باعث صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن جامعہ کراچی کو ادائیگی نہیں کر سکا۔
'مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یونیورسٹی تنخواہوں کے لیے بھی گرانٹ کا انتظار کرے۔'