شہرِ قائد کی معروف درس گاہ جامعہ کراچی میں گذشتہ رات آگ بھڑک اٹھی۔ تقریباً تین سے چار گھنٹے تک آگ بھڑکتی رہی اور کنیز فاطمہ روڈ کی جانب جامعہ کا پچھلا حصہ جو کہ درختوں اور جھاڑیوں پر مشتمل ہے، اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
عینی شاہدین کے مطابق آگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ کئی میل دور سے دیکھی جا سکتی تھی۔ جامعہ کراچی کے سیکیورٹی افسر کے مطابق جامعہ کی حدود کے اندر کسی نے کچرے میں آگ لگائی جو وہاں موجود ریسرچ سینٹر کے کچرے کی وجہ سے پھیل گئی۔ اس میں کیمیائی مواد بھی موجود تھا۔ یہ آگ ایچ ای جے ریسرچ سینٹر کی باؤنڈری وال اور کنیز فاطمہ روڈ سے منسلک جامعہ کراچی کی پچھلی دیوار کے درمیان موجود جھاڑیوں میں لگی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آگ لگنے کا واقعہ تقریباً شام سات بجے کے قریب پیش آیا جس کے بعد فوری طور پر صفورہ اور نیپا ہائیڈرنٹس پر ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آگ بجھانے کے لئے فوری طور پرپانی کے 10 ٹینکر روانہ کردئے گئے تھے اور آگ بجھانے والی گاڑیوں کو آتشزدگی کے مقام پر بلا قیمت پانی فراہم کیا گیا۔
جامع کراچی کے سیکیورٹی افسر محمد آصف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آگ لگنے کے فوراً بعد ہی میں نے فائر بریگیڈز کو بلوا لیا تھا تاکہ جلد سے جلد آگ پر قابو پایا جاسکے اور آگ ذیادہ نہ پھیلے۔ آتشزدگی کے باعث جامعہ کراچی کے ڈپارٹمنٹس اور یونیورسٹی کے اندر رہائشی علاقے میں کسی قسم کا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔‘
آگ لگنے کی وجوہات کے حوالے سے سکیورٹی افسر کا کہنا تھا کہ ’یہ آگ جامع کراچی میں واقع ریسرچ سینٹرز ایچ ای جے اور آئی سی سی بی ایس کی پچھلی جانب موجود جھاڑیوں میں لگی تھی کیوں کہ وہاں ان ریسرچ سینٹرز نے کافی بڑی تعداد میں اپنا کچرا پھینکا ہوا ہے۔ اس کچرے میں کیمیائی مواد بھی موجود تھا جس کے باعث آگ پھیلی اور ہوا کے زور سے پھیلتی چلی گئی لیکن بر وقت کاروائی کے باعث آگ پر قابو پالیا گیا۔‘
محمد آصف نے مزید بتایا کہ ’ایچ ای جے ریسرچ سینٹر کی اندر ہونے والی تمام تعمیرات کا ملبہ، اس کے علاوہ ہر قسم کا حیاتیاتی اور کیمیائی فضلہ کہیں اور پھینکنے کے بجائے تحقیقاتی ادارے کی حدود کے باہر پھینک دیا جاتا ہے جہاں کافی جھاڑیاں بھی ہیں۔ یہ علاقعہ تحقیقاتی ادارے کی دیوار کے باہر تو ہے لیکن جامع کراچی کی حدود میں ہی آتا ہے اور یہاں کچرا پھینکنا یونیورسٹی کے قوانین کے خلاف ہے۔‘
جامعہ کراچی کے اندر واقع حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری (ایچ ای جے) کیمیکل اور حیاتیاتی علوم کا بین الاقوامی مرکز ہے۔ یہ ادارہ عام طور پرایچ ای جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں ایک جدید تحقیقی مرکز ہے۔
تاہم اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے جب ایچ ای جے انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری سے رابطہ کیا تو ان کے سیکیورٹی روم میں موجود افسر آصف کا کہنا تھا کہ ’جامعہ کراچی کی جانب سے دیا گیا تاثر بالکل غلط ہے کیوں کہ جس مقام پر آگ لگی وہ جامعہ کراچی کی حدود کے اندر تو ہے لیکن ایچ ای جے سے چھ سو سے سات سومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جامعہ کراچی کی وہ دیوار جس کے سامنے پی سی ایس آئی آر لیباٹری نظر آتی ہے، وہ دیوار ٹوٹی ہوئی ہے اور دیوار کے اندر کچرا کنڈیاں موجود ہیں۔ اکثر لوگ اس ٹوٹی ہوئی دیوار سے اندر آجاتے ہیں۔ اس مقام پر کسی نے کچرے میں آگ لگائی تھی جو کہ مغرب کی جانب ہوا کے رخ کے باعث ایچ ای جے کے قریب واقع جھاڑیوں میں پھیل گئی۔‘
اس انسٹیٹیوٹ کے سیکیورٹی افسر نے مزید کہا کہ ’جہاں تک ایچ ای کی جانب سے کچرا پھینکنے کی بات ہے تو کچھ روز قبل یہاں سڑکیں بنی تھیں جس کی مٹی ادھر پھینکی گئی تھی، اس کے علاوہ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے کوئی کچرا نہیں پھینکا گیا۔ کیمیائی مواد کو بھی اِنسنیریشن روم میں خارج کیا جاتا ہے، ہم نے کبھی بھی کیمیائی مواد کھلی جگہ میں نہیں پھینکا۔‘
جامعہ کراچی پاکستان کی قدیم یونیورسٹی ہے جو 1951 میں بطور وفاقی یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔ اس پبلک یونیورسٹی کا شمار سندھ کی بڑی جامعات میں کیا جاتا ہے۔ جامعہ کراچی ایک ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی ہے جس میں کُل 52 شعبہ جات اور 17 تحقیقی ادارے ہیں۔