پنجاب سکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے تحت لاہور میں بدھ کو اپنی نوعیت کے پہلے ٹرانس جینڈر سکول کا افتتاح کیا جا رہا ہے۔ اس سکول کے آغاز کے بعد پنجاب میں ٹرانس جینڈرز کے لیے بنائے گئے سکولوں کی تعداد چار ہو جائے گی۔
اس سکول کے حوالے سے وزیر برائے پنجاب سکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ مراد راس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’لاہور میں یہ پہلا سکول ہے۔ جب ہم نے ملتان میں یہ سکول پہلی بار کھولا تھا تو وہ دنیا کا پہلا سکول تھا جو ٹرانس جینڈرز کے لیے کھولا گیا تھا۔ ہمیں بہت سے لوگوں نے رابطہ کر کے پوچھا کہ ہم نے یہ قدم کیسے اٹھایا۔‘
پنجاب سکول ایجو کیشن ڈپارٹمنٹ کی ترجمان سارہ رحمٰن نے سکول کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا: ’ہم اس سکول کو شروع کرنے کے لیے تین سے پانچ ماہ سے کوشش کر رہے تھے کہ لاہور میں بھی ایک سکول کھولا جائے کیونکہ یہاں ان کی ایک بڑی آبادی موجود ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ساتھ بیٹھنا شروع کیا۔ اس منصوبے کے حوالے سے ہمیں مختلف حلقوں سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس سب کے باوجود ہن اس منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ سکول لاہور میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول برکت مارکیٹ گارڈن ٹاؤن میں شروع کیا گیا ہے۔ اس میں ایک دیوار بنا کر ٹرانس جینڈرز کے لیے الگ جگہ بنائی گئی ہے۔
’ہم نے یہ علاقہ اس لیے چنا کیونکہ یہ اس کمیونٹی کی پہنچ میں ہے۔ اس سے ملحقہ علاقوں جوہر ٹاؤن، مسلم ٹاؤن، برکت مارکیٹ میں ہم زیادہ چوراہوں پر اس کمیونٹی کے افراد کو دیکھتے ہیں۔ اس لیے ہم نے یہاں سکول بنایا۔‘
سارہ نے بتایا کہ یہ سکول ٹرانس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے ہے اب چاہے وہ بچہ ہے یا بڑا یو ان میں سے جو بھی پڑھنے کی چاہت رکھتا ہے اس کے لیے سکول کے دروازے کھلے ہیں۔ نہ ہی ہم نے کوئی مخصوص نمبر رکھا ہے کہ اتنی تعداد رکھنی ہے، جتنے مرضی طالب علم یہاں آنا چاہیں وہ آسکتے ہیں۔
سارہ رحمٰن نے بتایا کہ ابتدائی طور پر سکول کے اوقات صبح 10 بجے سے دوپہر 12 بجے تک ہیں۔
’ہم نے جو کچھ بھی طے کیا وہ کمیونٹی سے بات چیت کر کے ان کی آسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا۔ اس کے علاوہ یہاں آنے والے طلبہ کے پاس یہ بھی موقع ہوگا کہ وہ پڑھائی کے بعد آدھے پونے گھنٹے کے لیے اسی سکول میں کوئی ہنر سیکھیں۔
’ہم انہیں تین اقسام کے ہنر ابتدائی طور پر سکھائیں گے جن میں کھانا پکانا، میک اپ کرنا اور کپڑے سینے کا کام شامل ہے تاکہ یہ کمیونٹی اچھے طریقے سے پیسے کما سکے۔‘
سارہ نے بتایا کہ ان کو پڑھانے کے لیے اساتذہ تربیت یافتہ ہیں۔ ہم پہلے ان طالب علموں کا ٹیسٹ لے کر تشخیص کی جائے گی کہ کونسا تعلیمی درجہ کس طالب علم کے لیے مناسب رہے گا۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں پڑھانے والے اساتذہ نہ صرف انہیں پڑھانے کے لیے تربیت یافتہ ہیں بلکہ ان کی نفسیاتی تربیت بھی کی گئی ہے تاکہ وہ اس کمیونٹی کے لوگوں کو بہتر سمجھ سکیں۔
’یہ لوگ ایک غیر معمولی ماحول سے آ رہے ہیں انہوں نے پہلے سکول کا ماحول نہیں دیکھا۔ انہیں چھوٹی چھوٹی چیزیں سب سکھانی پڑیں گی۔ جہاں تک ان کو ہنر سکھانے کا تعلق ہے تو وہ استاد ہم نے ان کی کمیونٹی سے ہی لیے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سکول میں معاشرے کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے ٹرانس جینڈر طالب علم آسکتے ہیں سب کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ سارہ کے مطابق یہ سکول پیر سے جمع تک ہو گا جیسے دیگر سکول ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے ایجنڈے میں ہے ہم انہیں نفسیاتی تعاون فراہم کر سکیں لیکن ہمارے پاس جتنے وسائل ہیں اس کے مطابق ہم ابھی بچوں کی طرح قدم اٹھا رہے ہیں۔
’ہمیں ابھی اس حوالے سے ردعمل کا سامنہ کرنا پڑ رہا ہے لیکن ہم پوری طرح کوشش کر رہے ہیں کہ ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور میڈیا بھی ہیں اس میں اپنا تعاون فراہم کر رہا ہے۔ البتہ اساتذہ کو ہم نے نفسیاتی طور پر تربیت دی ہے کہ وہ ان کے مسائل جیسے کسی کے ماضی میں کوئی مسئلہ تھا یا کوئی کسی شدید دکھ سے گزرا ہے تو ان کو کیسے محبت اور عزت سے ڈیل کرنا ہے۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ کاؤنسلنگ سروس ابھی نہیں ہے ہم اس کی جانب آہستہ آہستہ بڑہیں گے۔ ابھی ہم دیکھیں گے کہ یہ سکول کیسا چلتا ہے، کمیونٹی بھی انگیج رہتی ہے، لوگوں کا کیا ردعمل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ان طالب علموں کو مین سٹریم میں لانے کی جہاں تک بات ہے تو یہ ابھی تو شاید ممکن نہیں کیونکہ ابھی ایک الگ سکول بنانے پر اتنا شور مچ رہا ہے تو مین سٹریم میں لانے کے لیے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے پوری ایک سٹریٹجی بنے اور جب بات چیت اس درجے پر ہوگی تب کہیں جا کر آہستہ آہستہ فرق پڑے گا کہ لوگ ان کو قبول کریں ابھی تو ایسی کوئی صورت حال آئندہ آنے والے چند سالوں تک مجھے دکھائی نہیں دے رہی۔
وزیر برائے سکول ایجوکیشن مراد راس کے مطابق: ’ہم نے یہ سکول اس لیے شروع کیا کیونکہ ٹرانس جینڈرز ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہیں جنہیں دیوار کے ساتھ لگا کر رکھا ہوا ہے۔ انہیں نہ پڑھائی کے مواقع دیے جاتے ہیں نہ روزگار کے نہ کسی اور چیز کے۔ ان کے بارے میں ہم ہر قسم کا تبصرہ کرنے کو تو تیار تھے مگر ان کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں تھے۔
’میرے خیال میں ان کے لیے سب سے بنیادی آغاز تعلیم سے تھا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ ان کے لیے سب سے پہلے تعلیم کا آغاز کیا جائے کیونکہ ہم نے جہاں ان کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہے وہیں ان کے حوالے سے دوسرے لوگوں کا مائینڈ سیٹ بھی تبدیل کرنا ہے۔ جب وہ تبدیل کرنا ہو تو اس میں وقت بھی لگتا ہے اور محنت بھی جو ہماری ٹیم نے بہت کی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے ملتان، ڈی جی خان اور بہاولپور میں یہ سکول کھولے گئے۔
زعنایہ چوہدری جو کہ ٹیکسٹائل فیشن ڈیزائنر ہیں اور نیلی رعنا جو ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں، دونوں خواجہ سرا ہیں اور ان دونوں کو لاہور میں کھلنے والے پہلے ٹرانس جینڈر سکول کا فوکل پرسن بنایا گیا ہے۔
زعنایہ چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ ایک اچھی کاوش ہے لیکن میرے خیال میں یہ سکول الگ نہیں ہونے چاہیے بلکہ جتنے بھی نجی یا سرکاری سکولز ہیں ان سب کے اندر بھی ٹرانس جینڈر طالب علموں کو موقع دینا چاہیے جہاں یہ سب کے ساتھ مل کر پڑہیں۔
’لیکن اس کے باوجود اگر ہم ایک بڑے تناظر میں دیکھیں تو حکومت پنجاب کی جانب سے یہ ایک بہترین شروعات ہے اور اگر ہم اسی طرح چیزوں تھوڑا تھوڑا کر کے لے کر چلتے رہیں گے توآئندہ آنے والے وقتوں میں ہمارے لیے چیزیں مزید بہتر ہو جائیں گی۔‘
یاد رہے اس سے پہلے لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی نے 2020 میں جامعہ کے ہر تعلیمی شعبے میں خواجہ سراؤں کے لیے ایک سیٹ مختص کی تھی۔ اور یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جو خواجہ سرا اچھے نمبر لے گا اسے یونیورسٹی میں داخلہ دیا جائے گا۔