گھریلو تشدد کا نیا قصہ سامنے ہے۔ اس بار پھر ایک گلوکار جمع اداکار کا گریبان ہے اور اس سے وابستہ ایک لڑکی کا ہاتھ ہے۔
لڑکی کا کہنا یہ ہے کہ جب تک ہم ساتھ رہے یہ شخص تشدد کی صورت میں اپنا وظیفہ شوہری ادا کرتا رہا ہے۔ اُس تشدد کا ذکر وہ بطور خاص کررہی ہیں جو پریگنینسی کے تیسرے مہینے میں ہوا۔
ثبوت کے طور پر کچھ تشدد زدہ تصاویر ہیں جو وہ میڈیا کو فراہم کرچکی ہیں۔ پانچ، چھ سو میسجز ہیں جو ویمن پروٹیکشن اتھارٹی پنجاب کی چئیرپرسن کے حوالے کرچکی ہیں۔ ساتھ یہ حق بھی دے چکی ہیں کہ اگر میڈیا اصرار کرے تو چئیر پرسن وہ میسجز انہیں دکھا سکتی ہیں۔
گلوکار نے اپنی صفائی میں جو منہ توڑ دلائل دیے وہ ’میرا ہاتھ قرآن پہ ہے، میں سید ہوں، میں نجیب الطرفین ہوں، میری ایسی تربیت نہیں ہوئی، میں جھوٹ نہیں بولتا، اس لڑکی کے پاس کوئی ثبوت نہیں، اس لڑکی کے پاس میڈیکل رپورٹ نہیں‘ جیسے دلائل ہیں۔
ظاہر ہے ان کو یہی سب کچھ کہنا بھی چاہیے۔ مشکل یہ ہے کہ تھانے کچہری میں بھی خاتون سے یہی پوچھا گیا، میڈیکل رپورٹ ہے آپ کے پاس؟ جواب نفی میں ملا تو ایف آئی آر کاٹنے سے انکار کردیا گیا۔
مردوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ خواتین ذاتی نوعیت کے کسی جھگڑے میں مرد کو چِت کرنا چاہتی ہوں تو وہ بیچ چوراہے پر مرد کی عزت اس طرح اتار دیتی ہیں۔
خواتین کی اکثریت کا کہنا ہے خاتون جب مرد کو ’بدنام‘ کر رہی ہوتی ہے تب وہ خود بھی تو بدنام ہو رہی ہوتی ہے بلکہ زیادہ تو وہ خودہی بدنام ہورہی ہوتی ہے۔ چلو مرد کو بدنام کرنے کی کوشش تو سمجھ آتی ہے مگر وہ خود کو بدنام کرنے پر کیوں اتر آتی ہے؟
کیا خود کو معاشرے کے بے رحم تبصروں میں جھونکنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے؟ وہ بھی ایسے معاشرے میں جہاں خود والدین تک کی نظر میں اول وآخر قصوروار لڑکی ہی ہوتی ہے؟
مردوں کی اکثریت کے پاس وہی دلائل ہیں جو پریس کانفرنس کے دوران گلوکار کے پاس تھے اور ایف آئی آر کی درخواست موصول ہونے پر ایس ایچ او کے پاس تھے۔ یا پھر وہ سوالات ہیں جو تھانے کے باہر شدت سے انتظار میں کھڑے میڈیا کے مرد اہلکاروں کے پاس تھے۔
خواتین کی اکثریت کے پاس وہ دلائل ہیں جو جبر کے نظام میں پلنے والے ہر اُس انسان کے پاس ہوتے ہیں جو جبر کے الاؤ میں خود کو جلتا محسوس تو کرسکتا ہے مگر جابروں کے ہی بنائے ہوئے قوانین کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس کے پاس شواہد نہیں ہوتے۔
جابر کے پاس جبر کے ہزار حربے ہوتے ہیں۔ وہ گھونسے لاتیں چلانے اور بال کھینچنے کا ہنر ہی نہیں جانتا بلکہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کا فن بھی اسے خوب آتا ہے۔ وہ دائیں ہاتھ کا ایک ملا کے دیتا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہونے دیتا۔ پولیس مقابلے جیسی ماورائے عدالت واردات کیا ہوتی ہے؟ یہی نا کہ ایک طرف مظلوم کو یہ یقین دلانا کہ یہ ہم نے کیا، دوسری طرف اِس بات کا ثبوت مٹانا کہ یہ ہم نے کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لڑکی اگر ادھڑا گریبان اورسُرخ گال دکھا کر شکایت کرے تو شوہرِ نامدار پوچھتے ہیں ثبوت کہاں ہے؟ تھانے چلی جائے تو ایس ایچ او پوچھتا ہے، میڈیکل رپورٹ کہاں ہے؟
عدالت چلی جائے تو کہا جاتا ہے گواہ پیش کرو، اگرمیکے چلی جائے تو بزرگ وہی فرسودہ آموختہ دوہراتے ہوئے کہتے ہیں بیٹا ہماری عمر بھر کی کمائی ہوئی عزت تم نے ایک فیس بک پوسٹ میں اڑا کے رکھ دی۔ ہم پہلے ہی کہتے تھے یہ زبان دراز ہے سسرال والوں کے ساتھ مل ملا کے نہیں رہ پائے گی۔ وہی ہوا، خود تو کہیں کی رہی نہیں ہماری بھی ناک کٹوا دی۔ اب جہاں بھی جاؤ لوگ تمہارا نام لے کر طعنہ دیتے ہیں یہ تربیت کی تھی اپنی بچی کی؟ ہمارا قصور کیا تھا بیٹا جو ہمیں ذلیل ہونا پڑا؟ گھر کے ’مسئلے‘ گھر میں حل نہیں کرسکتی تھی کیا؟
والدین تو خیر ہوتے ہی سویٹ ہیں مگر مجھے سب سے زیادہ پیار اُن کیوٹ قسم کے مردوں پر آتا ہے جو خواتین کی طرف سے تشدد کی شکایت سامنے آنے پر پندار کے صنم کدے میں اخلاقیات کی اگربتیاں جلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں سموکر فرما دیتے ہیں، یار جب قانون موجود ہے تو اس سے رجوع کیوں نہیں کرتی، دس لوگوں کے بیچ تماشہ بنانا کوئی اچھی بات ہے کیا۔ معاشرے کے یہی نونہالانِ اعتدال ہوتے ہیں جو تھانہ کچہری کا ماتم کرنے والی خاتون کے اول آنسو پونچھتے ہیں پھر معصومیت سے کہتے ہیں، تھانہ کچہری والے ثبوت نہ مانگیں تو کیا کریں؟ یوں تو پھر کوئی بھی لڑکی مجھ جیسے کسی بھی قدسی پر الزام لگا دے گی، پھر ہم کیا کریں گے؟
اخلاق کے اِن ٹھنڈے میٹھے پیامبروں کا ’قانون موجود ہے‘ والا یہ خیال بھی چوری کے اُن دو سو ارب ڈالروں جیسا ہے جو برسوں سے سوئس بینکوں میں رکھے ہوئے تھے۔ان ڈالروں کے ہونے کا یقین اتنا پختہ تھا کہ اوپر تلے بیسیوں سیاسی تحریکیں اس پر چل گئیں۔ وقت آنے پر پتہ چلا کہ یہ بھی نسیم حجازی کے ناولوں میں کھینچے گئے واہموں جیسا ایک واہمہ تھا۔
ارے سادہ دِلان ِ حرم! اُس قانون کی نشاندہی تو کردو جس میں گھریلو تشدد کا مفہوم کسی بھی طور واضح ہو۔ انگلی رکھ کر کوئی بندہ خدا وہ قانون ہی دکھا دے جو شادی کے بعد خاتون کی رضا اور عدمِ رضا کو کسی بھی درجے میں کنسیڈر کرتا ہو۔ کسی بھی ایسے قانون کا کوئی حوالہ ہی مل جائے جو باوجود زخموں کے نشان کے ایف آئی آر درج کرانے میں لڑکی کی مدد کرسکتا ہو؟ مگر نہیں، ہمیں تو بس خیالی جزیروں پر بنائی ہوئی کسی ایسی بہشت میں رہنا ہے جو پہلے کبھی کسی نے دیکھی نہیں اور بعد میں کسی کو نصیب نہیں ہوگی۔
اب چونکہ اس معاشرے نے ’قانون موجود ہے‘ جیسے واہمے کے ساتھ ’مسئلے گھر میں نمٹاؤ‘ جیسے خیال کے ساتھ ’ثبوت دکھاؤ‘ جیسی عیاری کے ساتھ، رہنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو لڑکیوں کے لیے میرے پاس کُل ملا کے ایک تجویز رہ جاتی ہے۔ یہ تجویز ان لڑکیوں کے لیے لائقِ توجہ ہے جو مستقبل قریب و بعید میں شادی کی بھینٹ چڑھنی والی ہیں۔
گھر میں جب جہیز کی خریداری زیر بحث ہو تو لڑکی کو چاہیے بڑوں میں سے نسبتا معقول بڑے کو ایک طرف لے جا کر کہے، دیکھیں! مجھے تکیہ بستر، اے سی پنکھے، کرسی ٹیبل، سنگار زیور، ڈنر سیٹ یہ سیٹ وہ سیٹ کچھ بھی نہیں چاہیے۔ اگر دینا ہی ہے تو جہیز میں ہر کمرے کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کا معیاری سیٹ خرید کر دیں، گھر میں ایک چھوٹی سی لیبارٹری بھی بنوا کر دیں۔
ساتھ دو ڈاکٹر اور دو ٹیکنیشنز بھی دیں جو صبح اور رات کی شفٹوں میں آنکھ جھپکائے بغیر کام کریں۔ چار ایسے عاقل بالغ گواہ بھی جہیز میں دیں جو آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ پر پورا اترتے ہوں۔ گواہ دینے سے پہلے گھر کے کمرے اور کونے کدرے ضرور گن لیں کہ کتنے ہیں۔ کمرے چار ہیں تو گواہوں کی تعداد سولہ ہونی چاہیے، یعنی ہر وہ مقام جہاں جہاں تشدد کا امکان موجود ہو وہاں وہاں پاک نیت گواہ تعینات کرکے دیں۔
اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کل کلاں کو تھانہ کچہری اور میڈیا انڈسٹری میں شکایت درج کروانے پر کوئی ثبوت وشواہد مانگے تو تمام سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ فراہم کیا جاسکتا ہے۔
میڈیکل رپورٹس چاہیے ہوں تو موقع پر موجود طبی عملے کے لیے ہوئے ٹیسٹ اور جاری کردہ میڈیکل رپورٹس پیش کی جاسکتی ہیں، شرعی تقاضے پورے کرنے کے لیے گواہ مانگ لیے جائیں تو جائے وقوعہ والے کمرے کے گواہ پیش کیے جا سکیں گے۔
اس سارے کشٹ سے قاضی اور محتسب کا کچھ نہ کچھ اطمینان تو شاید ہو جائے مگر والدین اور خاندان کی عزت کا سوال پھر بھی رہ جائے گا۔ والدین اپنی کٹی ہوئی ناک دکھا کرعزت کا سوال کریں تو ازراہ احترام اپنے منہ پر ایک پٹی باندھ لیں تاکہ بحث و تکرار کی نوبت نہ آئے۔ تاہم اس پٹی پر جلی حروف میں لکھوا دیں، ڈئیر والدین! انتظامیہ اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتی، کیونکہ یہ سب آپ کے دیے ہوئے جہیز کا کیا دھرا ہے۔
اس کے بعد اگر کچھ بھی نہ ہوا، مرد اشرافیہ کا کم از کم بھی اس بات پر اتفاق ضرور ہوجائے گا کہ جہیز واقعی ایک لعنت ہے !