’وہ نمازِ جمعہ پڑھنے کی تیاری کر رہا تھا، اس کے لیے کھانا بھی تیار تھا، کھانا نہانے کے بعد کھائے گا، کہہ کر باتھ روم گیا اور ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔‘
یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے بدیع الزمان کا، جن کا جواں سال بیٹا انعام اللہ گذشتہ روز واش روم میں لگے گیس گیزر میں لیکج کے باعث دنیا سے کوچ کر گیا۔
انہوں نے کہا کہ جمعے کے روز انعام اللہ 20 منٹ تک باتھ روم سے نہیں لوٹا تو وہ بیٹے کے کمرے میں گئے۔ ’وہ کمرے کی فرش پر پڑا ہوا تھا۔‘
دو بچوں کے باپ انعام اللہ کو اسی حالت میں فوراً ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں پہنچنے سے پہلے ہی ان کی موت واقعہ ہو چکی تھی جس کی وجہ گیس کے باعث دم گھٹنا بتائی گئی۔
بدیع الزمان کا کہنا تھا: ’مجھے کیا معلوم تھا کہ یہی گیزر میرے بیٹے کا قاتل بنے گا۔ میری لوگوں سے التجا ہے کہ گیس سے کھیلنا بند کردے، اور جتنا ہو سکے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔‘
ہر سال سردیوں کا موسم آتے ہی گیس لیکج کی وجہ سے دھماکے یا لیکج سے اموات واقع ہونے کے خبریں سامنے آتی ہیں اور اس کی بڑی وجہ ماہرین کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے گریز ہے۔
گیس لیکج کیا ہے ؟
سردیوں اور عام طور پر کمرے کو گرم کرنے کے لیے گیس سے چلنے والے ہیٹر یا گیزر استعمال کیے جاتے ہیں۔
ساجد علی خان غیر سرکاری تنظیم پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی ( پی آری سی ایس) خیبر پختونخوا کے فرسٹ ایڈ کوآرڈینیٹر ہیں اور گیس لیکج اور اسی قسم کے حادثات کے بارے میں آگاہی مہمات اور عوام کو تربیت دیتے ہیں۔
ساجد علی خان کے مطابق ’موسم سرما میں گیس لیکج کی وجہ سے حادثات کی بڑی وجہ رات کو سونے سے پہلے ہیٹر کو بند نہ کرنا ہے۔‘
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’بعض اوقات رات کے دوران لوڈ شیڈنگ یا کسی بھی وجہ سے گیس کی ترسیل بند ہو جاتی ہے، اور ہیٹر بجھ جاتا ہے۔‘
’گیس کی ترسیل بحال ہونے پر آگ نہیں جلتی لیکن گیس کا اخراج جاری رہتا ہے، جو حادثے کی وجہ بنتا ہے۔‘
ساجد علی نے کہا کہ ’کمرے میں گیس بھر جانے سے آکسیجن کی کمی واقع ہوتی ہے، جو وہاں موجود افراد کے ناک کے ذریعے پھیپھڑوں میں بھر جاتی ہے اور دم گھٹنے کا باعث بنتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’گیس سے چلنے والے ہیٹر کے قریب موجود افراد بھی کمرے میں وینٹی لیشن کی کمی کی وجہ سے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘
ساجد کا کہنا تھا کہ ’گیس کی وجہ سے بے ہوش ہونے والے شخص کو فوراً کھلی ہوا میں نکالا جانا چاہیے، تاکہ پھیپھڑوں کو زیادہ مقدار میں آکیسجن مل سکے۔‘
احتیاطی تدابیر
ساجد علی کا کہنا تھا ’گیس یا بجلی سے چلنے والا ہیٹر ہر صورت سونے سے پہلے بند کیے جانا چاہیے، بلکہ کوشش کی جائے کہ گیس کا والو (valve) بھی بند کیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’موسم سرما کے دوران پاکستان میں گیس کی لوڈ شیڈنگ معمول بن جاتی ہے، اور خصوصاً راتوں میں ایسا زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ سونے سے پہلے ہیٹر اور گیس کی ترسیل کو بند کر دیا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا ’بجلی سے چلنے والے ہیٹر بھی رات کو سونے سے پہلے لازماً بند کیا جانا چاہیے کیونکہ بجلی کی تار زیادہ گرم ہونے پر آگ پکڑ سکتی ہیں، جو حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔‘
سیفٹی والو کے ساتھ آنے والے زیادہ محفوظ ہیٹرز کا ذکر کرتے ہوئے ساجد علی کا کہنا تھا ’ایسے آلات میں گیس کی بندش کے ساتھ ہی ہیٹر کو گیس کی ترسیل بھی بند ہو جاتی ہے۔‘
’اور گیس کی ترسیل دوبارہ شروع ہونے پر ہیٹر میں داخل نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہ خود کار طریقے سے آف ہو چکا ہوتا ہے۔‘
ساجد علی کے مطابق ’ہیٹر بنانے والی کمپنیوں کو گیس سے چلنے والے ایسے آلات میں سیفٹی والو (Safety Valve) ضرور لگانا چاہیے۔‘
سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل)، جو خیبر پختونخوا اور پنجاب میں قدرتی گیس ترسیل کرتی ہے، کے مطابق قواعد و ضوابط پر عمل کر کے گیس لیکج اور اس کے باعث ہونے والے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔
قدرتی گیس کی کوئی بو نہیں ہوتی، اور اس میں میتھین کی مقدار بہت زیادہ ہونے کے باعث اسے آگ آسانی سے لگتی ہے۔
پاکستان میں بے بو قدرتی (سوئی) گیس میں ایک مخصوص قسم کا کیمیاوی مادہ شامل کیا جاتا ہے، جس کا مقصد گیس کو زیادہ بدبودار بنانا ہے۔
ساجد علی کا کہنا تھا: ’اس کیمیکل کی وجہ سے لیکج کی صورت میں قدرتی گیس کی بو آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے۔‘
’تاہم قدرتی گیس کے اخراج کا پتہ لگانے کے لیے مخصوص گیس ڈیٹیکٹرز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، جو گیس کی لیکج کی صورت میں الارم بجاتے ہیں۔‘
انہوں نے مشورہ دیا کہ ’گھروں میں قدرتی گیس کی سپلائی لائنز کے جوڑ، والوز اور پائلٹس وغیرہ کو صابن کے پانی کی مدد سے گاہے بگاہے چیک کرنا بھی ضروری ہے۔‘