برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ نے گذشتہ روز اپنی ویب سائٹ پر ایک خبر شائع کی جس میں انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ شہباز شریف پر نیب یا برطانوی ادارے ڈی ایف آئی ڈے نے کبھی برطانوی فنڈز کی خورد برد کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔
اس خبر چھپنے کے بعد خود شہباز شریف سمیت پاکستان مسلم لیگ ن کے متعدد رہنماؤں نے شہباز شریف کی بے گناہی اور ان کے خلاف مبینہ مہم چلائے جانے کے بارے میں بیانات دیے ہیں، جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے اسے ’مک مکا‘ قرار دیا ہے۔
شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے بےبنیاد الزامات لگا کر میرا اور میرے خاندان کا مذاق اڑایا لیکن مجھے اللہ پر یقینِ کامل تھا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ فیک نیوز کی عمر مختصر ہوتی ہے، این سی اے کے بعد ڈیلی میل کی خبر نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔
وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ خان نے ایک بیان میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے ’ڈیلی میل‘ کے ذریعے شہبازشریف کو ’بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا برطانوی اخبار ڈیلی میل کے معافی مانگنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ثابت ہوا کہ شہباز شریف نے کرپشن نہیں کی، ثابت ہوا کہ کرپشن نہیں تھی، اس لیے جھوٹا افسانہ گھڑا گیا، ثابت ہوا کہ وزیراعظم کا اختیار جھوٹ پھیلانے کے لیے استعمال ہوا۔‘
They mocked & ridiculed me & my family through their baseless allegations but I had my unwavering faith in Allah, for only He could expose their brazen lies. Disinformation & fake news have limited shelf life & truth is ultimate victor. After NCA, Daily Mail story has proven it. https://t.co/4Wn6Mwwg3b
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) December 8, 2022
جب کہ وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ نے بھی لکھا کہ اس خبر کے پیچھے عمران خان کا ہاتھ تھا اور یہ کہ ڈیلی میل کی سٹوری کے ’ماسٹر مائنڈ‘ عمران خان تھے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ عمران خان کو پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ سے ہٹایا جائے۔
پی ٹی آئی کا ردعمل
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’آؤٹ آف دی کورٹ سیٹلمنٹ (مک مکا) نہ ہوا ہوتا تو شہباز شریف ہرجانہ وصول کرتے اور عدالت میں فیصلہ سنایا جاتا۔ کیس کا ٹرائل ہی نہیں ہوا۔ اگر کیس جیتا ہے تو لاؤ کوئی عدالتی صفحہ۔ اخبار نے صرف ایک الزام کی حد تک وضاحت کی ہے جبکہ باقی الزامات پر مک مکا ہو گیا ہے۔‘
سابق مشیرِ احتساب شہزاد اکبر نے گذشتہ رات ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ بظاہر یہ معاملے کی سیٹلمنٹ لگتی ہے۔ انہوں لکھا کہ ’ڈیلی میل نے کہا کہ ’چونکہ نیب نے شہباز شریف کو برطانوی حکومت یا اس کے ادارے DFID کے مال کو خورد بردکرنے کے الزام پہ چارج نہیں کیا لہذا ادارہ اس الزام کی حد تک معذرت خواہ ہے اور تصحی کرتا ہے۔‘ یہ مقدمہ کی سیٹلمنٹ لگتی ہے جب نیب ہی لیٹ گئی NRO2 ہو گیا تو ایک ڈیلی میل کیا کرتی؟‘
ڈیلی میل نے کہا کہ “چونکہ نیب نے شہباز شریف کو برطانوی حکومت یا اسکے ادارے DFID کے مال کو خورد بردکرنے کے الزام پہ چارج نہیں کیا لہذا ادارہ اس الزام کی حد تک معذرت خواہ ہے اور تصحی کرتا ہے”
— Mirza Shahzad Akbar (@ShazadAkbar) December 8, 2022
یہ مقدمہ کی سیٹلمنٹ لگتی ہے
جب نیب ہی لیٹ گئی NRO2 ہو گیا تو ایک ڈیلی میل کیا کرتی؟۱/۲ pic.twitter.com/WhKN1Mrs2a
ڈیلی میل کی اصل خبر کیا تھی؟
ڈیلی میل نے 14 جولائی 2019 ایک خبر شائع کی تھی جس کا عنوان تھا: ’کیا پاکستانی سیاست دان، جو بیرونِ ملک پاکستانیوں کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں، کے خاندان نے زلزلے کے متاثرین کے لیے دی جانے والی امداد چوری کی؟‘
Did the family of Pakistani politician who has become the poster boy for British overseas aid STEAL funds meant for earthquake victims.
یہ خبر ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز نے لکھی تھی اور اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہباز شریف نے 2005 کے زلزلے کے بعد برطانیہ کے ادارے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ (ڈی ایف آئی ڈی) سے ملنے والے امدادی رقم خورد برد کی تھی۔
’تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے پاکستان میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کے لیے 500 پاؤنڈ سے زائد کی رقم بطور امداد فراہم کی گئی اور یہ امداد ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ، جو کہ برطانیہ کا ایک سرکاری ادارہ ہے، کے ذریعے دی گئی۔‘
ڈیوڈ روز کے مطابق: ’اس امدادی رقم سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے دس لاکھ پاؤنڈ کی رقم اپنے فرنٹ مین پاکستانی نژاد برطانوی شہری آفتاب محمود کو منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائی اور انہوں نے یہ رقم شہباز شریف کی فیملی کو فراہم کر دی۔‘
خبر میں بتایا گیا تھا کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان نے برطانوی شہریوں کے ٹیکسوں سے دی گئی امدادی رقم میں غبن کیا۔ ڈیلی میل کی جانب سے شہباز شریف کے مختلف برطانوی عہدیداروں کا بھی تذکرہ کیا گیا۔
تاہم بعد میں ڈی ایف آئی ڈی کے ترجمان اور شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز نے اس خبر کی تردید کر دی۔
ڈی ایف آئی ڈی کے ترجمان کی جانب سے آفیشل ویب سائٹ پر اس خبر کو ’بے بنیاد‘ اور ’من گھڑت‘ قرار دے کر مسترد کر دیا گیا، جب کہ شہباز شریف نے جنوری 2020 میں لندن کی رائل کورٹ آف جسٹس میں ’ڈیلی میل‘ اور اس کے رپورٹر ڈیوڈ روز کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا تھا۔
ڈیوڈ روز کون ہیں؟
شہباز شریف کے بارے میں مذکورہ خبر ڈیوڈ روز نے دی تھی۔ ڈیوڈ روز برطانوی صحافی ہیں جو ڈیلی میل کے علاوہ دوسرے مشہور اخباروں کے لیے بھی لکھتے رہے ہیں جن میں وینٹی فیئر اور گارڈین بھی شامل ہیں۔
63 سالہ روز تحقیقاتی صحافی ہیں اور انہیں 2013 میں یوکے پریس گزٹ کی جانب سے برطانیہ کے چوٹی کے دس تحقیقاتی صحافیوں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔
ڈیوڈ روز پہلے بھی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ 2016 میں انہوں نے ساشا واس کے خلاف ایک خبر دی تھی جس کے بعد عدالت نے ان پر اور اخبار ڈیلی میل پر جرمانہ عائد کیا تھا۔
اس کے علاوہ 2017 میں انہوں نے پاکستانی نژاد برطانوی ٹیکسی ڈرائیور واجد اقبال کے خلاف خبر دی تھی کہ وہ بچوں کو سیکس کے لیے استعمال کرنے کا دھندا چلا رہے ہیں۔ مگر جب واجد اقبال نے ان پر کیس کیا تو ڈیلی میل نے عدالت سے باہر تصفیہ کر لیا تھا۔
ڈیوڈ روز ماحولیاتی تبدیلی کے بھی قائل نہیں ہیں اور اس سلسلے میں انہیں برطانیہ کے قومی موسمیاتی ادارے کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیلی میل اخبار کی تاریخ کیا ہے؟
ڈیلی میل برطانیہ کا قدیم اخبار ہے جو 1896 میں لندن سے شائع ہونا شروع ہوا تھا۔ اسے ٹیبلوئڈ اخبار کہا جاتا ہے۔ برطانیہ میں اخباروں کی دو بڑی اقسام ہیں، جن میں براڈ شیٹ اور ٹیبلوئڈ شامل ہیں۔
براڈ شیٹ اخباروں کو نسبتاً سنجیدہ اور مدبر اخبار سمجھا جاتا ہے، اور یہ بڑے سائز میں چھپتے ہیں، جب کہ ٹیبلوئڈ کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور یہ عام طور پر سنسنی خیز خبروں، سکینڈلوں اور مشاہیر کے بارے میں افواہوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
بی بی سی کی ایک تحریر کے مطابق ٹیبلوئڈ اخباروں میں تصویریں زیادہ ہوتی ہیں، ان کی سرخیاں زیادہ موٹے حروف میں لکھی جاتی ہیں اور ان کی زبان آسان اور سیدھی سادی ہوتی ہے۔ برطانیہ میں ڈیلی میل، ڈیلی ایکسپریس، دا سن اور ڈیلی مرر ٹیبلوئڈ کے زمرے میں آتے ہیں۔
اس کے مقابلے پر ’دا ٹائمز،‘ ’دا ٹیلی گراف‘ اور ’دا گارڈین‘ براڈ شیٹ اخبار ہیں۔
ڈیلی میل پر ماضی میں کئی مقدمے بنے ہیں اور اسے تنازعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گذشتہ برس پاکستان کیج فائٹر عثمان طاہر رانجھا اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر اینجلا مصرا سے معافی مانگ کر انہیں معاوضہ ادا کیا تھا۔
ڈیلی میل نے خبر چھاپی تھی کہ اس جوڑے نے اپنے عملے کے ارکان سے بدسلوکی کرتے ہیں اور انہیں کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ جب اس جوڑے نے عدالت سے رجوع کیا تو اخبار نے عدالت سے باہر تصفیہ کر لیا۔
اسی طرح ڈیلی میل گلوکار ایلٹن جان، مصنفہ جے کے راؤلنگ، سابق امریکی خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ اور دوسری متعدد شخصیات کو غلط خبریں چھاپنے کے بعد معاوضہ ادا کر چکا ہے۔