برطانیہ میں مختلف صنعتوں میں ملازموں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی جی ایم بی یونین نے اپنی ایک تنقیدی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ دنیا کے مختلف ہوائی اڈوں پر خواتین عملے کے معاملے میں ’شرمناک‘ کلچر متعارف کرا دیا گیا ہے۔
یونین کا کہنا ہے ایئرلائن کی صنعت سے وابستہ خواتین کو ایسا لباس زیب تن کرکے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جسے ’سیدھا سادہ خطرناک‘ کہا جا سکتا ہے۔
ایئرلائن صنعت کے ہزاروں ملازموں کی نمائندہ جی ایم بی یونین کے مطابق آجروں کی جانب سے خاتون ملازموں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بنی سنوری رہیں، لپ سٹک لگائیں اور اونچی ایڑی والے جوتے پہنیں۔
جائزہ رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ فضائی کمپنیوں کی خواتین عملے کو ان سخت قواعد کی پابندی کرنی پڑتی ہے، جن کے مطابق ٹانگوں، بازوؤں اور چہرے کے بالوں کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا گیا ہے۔
فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والی خواتین کہتی ہیں انہیں معمول کی ایڑی والی جوتی پہننے کی اجازت صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ اگر ڈاکٹر لکھ کر دے حالانکہ انہیں مصروف ہوائی اڈوں کے کے کئی ٹرمینلز پر پہنچنے کے لیے روزانہ کئی میل چلنا پڑتا ہے۔
جی ایم یونین کی جائزہ رپورٹ کے مطابق ہوائی اڈوں پر خدمات فراہم کرنے والی بڑی بین الاقوامی فضائی کمپنی سوئس پورٹ میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی ہے کہ وہ میک کریں اور سرخ، گلابی یا کلیجی رنگ کی لپ سٹک لگائیں۔ 1.5 سینٹی میٹراونچی ایڑی والی جوتیاں پہنیں جبکہ ٹانگوں پر بال دکھائی نہ دیں۔
یونین کے مطابق فضائی کمپنی ایمرٹس کو ہوائی اڈوں پر زمینی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ’ناٹا‘ لمبے بالوں کی اجازت نہیں دیتی۔
کمپنی پالیسی کے تحت ’خاتون ملازم کی ٹانگوں، بازوؤں اور چہرے کے بال قابل قبول نہیں۔ یہ بال صاف کرنے کے مختلف طریقے ہیں جن میں سے جو آپ کو مناسب لگے اختیار کرلیں‘
مرد کارکنوں کو ایسے کسی ضابطے کا پابند نہیں بنایا گیا۔ ناٹا کمپنی نے خواتین کے میک اپ اور اس کے رنگوں کے لیے بھی تفصیلی پالیسی بنا رکھی ہے، جس کے تحت ’لازم ہے کہ جتنی دیر تک آپ یونیفارم میں ہیں اس پر عمل کریں‘۔
دوسری جانب مرد کارکن صرف اسی صورت میں میک اپ کر سکتے ہیں جب انہیں کوئی ’جسمانی نقص‘ چھپانے کی ضرورت ہو، لیکن ’خاتون کارکنوں کے لیے لازمی ہے کہ نیل پالش لگائیں‘ لیکن ناخن ٹوٹ جانے کی صورت میں پالیسی کے مطابق انہیں چھوٹا کرنا ضروری ہے‘۔
جی ایم بی یونین کی نیشنل افسر ندین ہوٹن نے کہا:’میرا خیال ہے وردی سے متعلق اس قسم کی پالیسیاں تاریخ کی کتابوں تک محدود ہیں۔ جدید دنیا میں کام کے مقامات پر ان کے لیے کوئی جگہ نہیں، کام کرنے والی خواتین کو ’نمائش‘ کے لیے پیش کرنا شرمناک عمل ہے۔‘
’ایسی پالیسیاں جو صرف خواتین کے لیے ہوں مردوں کے لیے نہیں، سیدھی سے سی بات ہے وہ امتیازی ہوتی ہیں۔ خاتون ملازموں سے یہ تقاضہ کرنا کہ وہ ڈیوٹی کے دوران اونچی ایڑی والی جوتی پہن کر میلوں چلیں جبکہ مرد کارکنوں کو عام ایڑی والا جوتا پہننے کی اجازت ہو، سراسر امتیازی سلوک ہے۔‘
’یہ بھی قابل تشویش امر ہے کہ خواتین کو ٹانگوں اور بازوؤں کے بال صاف کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ وہ دلکش نظر آئیں – خواتین کے جسم پر بال ہوتے ہیں یہ بات سمجھ لی جانی چاہییے۔ کسی آجر کا کام نہیں وہ خاتون ملازموں کو بال صاف کرنے کا کہے اور نہ خواتین کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کیا جائے کہ انہیں کام کے پرانے اور صنفی امتیاز پر مبنی معیار پر پورا اترنا ہوگا۔‘
ہوٹن نے کہا جنسی ہراسانی اور ہراسانی کے خلاف مہم ’می ٹو‘ کی بدولت لوگوں میں احساس پیدا ہوا ہے کہ خواتین کو ڈیوٹی کے دوران ’مناسب تحفظ‘ کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہوٹن کا کہنا ہے اگرچہ یہ پالیسیاں جنسی ہراسانی میں نہیں آتیں لیکن خاتون ملازم ’کیسی دکھائی دیں اور ان کا رویہ کیسا ہونا چاہییے؟‘ اس حوالے سے ان پالیسیوں کا کردار ’خاصا خطرناک ‘ ہے کیونکہ پالیسیاں خواتین پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ وہ مردانہ حاکمیت کے کھوکھلے معیار پر پورا اتریں۔‘
ان کا کہنا تھا یہ تصورات اور لباس کا ضابطہ جن پر سختی کے ساتھ پابندی کا تقاضا کیا جاتا ہے انہیں محض جنسی کشش رکھنے والا کوئی وجود بنا کر رکھ دیتا ہے۔
یہ رپورٹ ناروے کی فضائی کمپنی کی طرف سے ایک متنازع پالیسی ترک کر دینے کے بعد سامنے آئی ہے جس میں خواتین کیبن عملے کو پابند بنایا گیا تھا کہ کیبن سے باہر بھی اونچی ایڑی والی جوتی پہنیں اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتیں تو انہیں ڈاکٹر سے لکھوا کر دینا ہوگا۔
یہ سستی فضائی کمپنی خواتین پر مشتمل عملے کے لیے میک اپ کی پالیسی بھی ختم کر رہی ہے۔
ناروے کی فضائی کمپنی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا مئی میں پالیسی واپس لے لی گئی تھی۔ ناروے کی سب سے بڑی فضائی کمپنی نے، جسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لباس کے حوالے سے 22 صفحات پر مبنی ہدایت نامے میں اپنی خاتون ملازمین سے کہا تھا کہ وہ لازمی طور پر دو سینٹی میٹر اونچی ایڑی والے جوتے پہنیں۔
کمپنی پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ’پاگل مردوں کی کائنات‘ نام کے امریکی ڈارمے کی دام میں الجھ گئی ہے۔ امریکہ میں مقبول ہونے والا یہ ڈرامہ 1960 کی دہائی کے صنفی امتیاز اور مردوں کی برتری کے رجحانات کے بارے میں ہے۔
مارچ میں آئرلینڈ کی فضائی کمپنی ائرلگنس(Aer Lingus) نے اعلان کیا کہ اس کے خواتین کیبن عملے کو میک اپ کرنے یا سکرٹ پہننے کی ضرورت نہیں ہوگی، اس سے پہلے برطانوی فضائی کمپنی ورجن اٹلانٹک نے بھی ایسا ہی اعلان کیا تھا۔
فضائی کمپنی کی ان خواتین میزبانوں کو، جو سرخ یونیفارم کے حوالے سے شہرت رکھتی تھیں، اب خصوصی درخواست کے بغیر ہی معیاری لباس کے طور پر پاجامے(ٹراؤزر) پہننے کے لیے دیے جائیں گے۔
سوئٹزرلینڈ کی فضائی کمپنی سوئس پورٹ نے کہا: ’سوئس پورٹ کا موجودہ یونیفارم اور حفاظتی وردی کمپنی کے شراکت داروں کی پالیسیوں، صحت اور سلامتی کے معیارات کو سامنے رکھ کر تیار کئے جاتے ہیں۔ ہم اس وقت پالیسی کے نکات کا احتیاط سے جائزہ لے رہے ہیں تاکہ تمام عملے کا آرام یقینی بنایا جا سکے‘۔
ہوائی اڈوں پر زمینی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ناٹا کے ترجمان نے کہا:’کمپنی کاروبار کی کامیابی میں عملے کے کردار کو اہمیت دیتی ہے اور کام کے مقام پر معیار کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس طرح، کمپنی کی پالیسیاں ایسی ہیں جن میں مردوں اور خواتین پر مشتمل دونوں طرح کے عملے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایسا یونیفارم تیار کیا جاتا ہے جس میں عملہ آسانی کے ساتھ فرائض انجام دے سکے۔‘
© The Independent