ایران میں پیر کو ملک میں گذشتہ تین مہینوں سے جاری مظاہروں سے منسلک ایک اور شخص کی پھانسی کے بعد یہ سزا پانے والوں کی تعداد دو ہو گئی۔
عدلیہ کی میزان آن لائن نیوز ایجنسی کے مطابق ماجد رضا رہنوارد کو مشہد شہر کی ایک عدالت نے سکیورٹی فورسز کے دو ارکان کو چاقو سے قتل کرنے اور چار افراد کو زخمی کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی۔
نیوز ایجنسی نے مزید کہا کہ ماجد کو جیل کی بجائے شہر میں سرعام پھانسی دی گئی۔
جمعرات کو ایران کی جانب سے مظاہروں سے منسلک پہلی پھانسی کے بعد عالمی غم و غصے کے باوجود یہ پھانسی ہوئی۔
اس سے قبل 23 سالہ محسن شیکاری کو سکیورٹی فورسز کے ایک رکن کو زخمی کرنے کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔
ایران ملک میں جاری مظاہروں کو غیر ملکی سازش قرار دیتا ہے۔
میزان نے ماجد کی پھانسی کی تصاویر شائع کی ہیں، جس میں پیٹھ کے پیچھے ہاتھ بندھے ایک شخص کو دکھایا گیا اور جو کرین سے جڑی رسی سے لٹکا ہوا ہے۔
ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں مزید مظاہرین کو سزائے موت دیے جانے کا خدشہ ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس خدشے کا اظہار ایک ایسے وقت میں کیا جب ایران کو ملک گیر مظاہروں کے بعد بین الااقوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران میں روال سال ستمبر میں شروع ہونے والے مظاہروں کو اب تقریباً تین مہینے ہو چکے ہیں۔
یہ مظاہرے ایک کرد خاتون مہسا امینی کی مذہبی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے، جنہیں ملک میں نافذ پردے کے قوانین کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا۔
حکام نے ان مظاہروں میں شریک افراد کے خلاف بڑی پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا۔
تین ماہ سے جاری ان مظاہروں کے بعد ایرانی عدلیہ کے حکام نے گذشتہ ہفتے ایران میں اخلاقی پولیس کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
الجزیرہ ڈاٹ کام کے مطابق ایرانی اٹارنی جنرل محمد جعفر المنتظری کا کہنا تھا کہ ملک میں اخلاقی پولیس کی کارروائیاں معطل کر دی گئی ہیں۔
جبکہ ایران کے خبر رساں ادارے اسنا کے مطابق اٹارنی جنرل نے مزید کہا: ’اخلاقی پولیس کا عدلیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘
ایران نے جمعرات کو 23 سالہ محسن شیکاری کو پھانسی دی جنہیں سکیورٹی فورسز کے ایک رکن پر حملہ کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو نمائشی مقدمہ قرار دیا۔
ایران کی عدلیہ کا کہنا ہے کہ اس نے مظاہروں کے سلسلے میں اب تک 11 افراد کو سزائے موت سنائی ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کے مطابق تقریباً ایک درجن دیگر افراد کو ایسے الزامات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے انہیں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
نیویارک میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہادی غیمی نے کہا کہ جب تک کہ غیر ملکی حکومتیں ایران کے سفارتی اور اقتصادی قیمت میں ’نمایاں اضافہ‘ نہیں کرتیں، دنیا ’اس قتل عام کو قبولیت کا پیغام بھیج رہی ہے۔‘
ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ایران اب 22 سالہ ماہان صدرت کو ان کے ’انتہائی غیر منصفانہ‘ مقدمے کے صرف ایک ماہ بعد پھانسی دینے کی تیاری کر رہا ہے۔
انہیں احتجاج میں چاقو لہرانے کا مجرم قرار دیا گیا تھا جبکہ انہوں نے عدالت میں اپنے اوپر لگے اس الزام کو مسترد کیا تھا۔
ایمنسٹی نے کہا کہ ہفتے کو صدرت کو گریٹر تہران جیل سے قریبی شہر کرج کی راجئی شہر جیل میں منتقل کر دیا گیا جو ان ’خدشات کو جنم دے رہا ہے کہ ان کی پھانسی پر جلد عمل درآمد ہو سکتا ہے‘
نمائشئ مقدمہ
اوسلو میں قائم ایران ہیومن رائٹس کے ایک اور گروپ نے کہا کہ ’دیگر سزائے موت کے قیدیوں کی طرح، انہیں بھی تفتیش، کارروائی اور مقدمے کے دوران اپنے وکیل تک رسائی نہیں دی گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایمنسٹی نے خبردار کیا کہ احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے ایک اور نوجوان سہند نورمحمد زادہ کی جان خطرے میں ہے۔
ایمنسٹی کے مطابق انہیں نومبر میں ’ہائی وے کی ریلنگ کو توڑنے اور کوڑے کے ڈبوں اور ٹائروں کو آگ لگانے‘ کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
جن دیگر افراد کو سزائے موت سنائی گئی ان میں ایران کی کرد اقلیت سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ ریپر سمان سعیدی بھی ہیں۔
ان کی والدہ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں ان کی زندگی بخشنے کی التجا کی اور کہا کہ ’میرا بیٹا ایک فنکار ہے فسادی نہیں۔‘
ایران کے عدالتی حکام نے گذشتہ ماہ تصدیق کی تھی کہ ایک اور ریپر اور حکومت کے ناقد توماج صالحی، جنہوں نے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کا اظہار کیا تھا پر ’زمین پر فساد پھیلانے‘ کا الزام عائد کیا گیا اور انہیں بھی موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے سمان سعیدی اور توماج صالحی کے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ’ہمیں ان ایرانی فنکاروں کی جان کا خوف ہے جن پر سزائے موت کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔‘
ایران کی طرف سے سزائے موت کا استعمال اس کریک ڈاؤن کا حصہ ہے جس کے بارے میں ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے کم از کم 458 افراد کو ہلاک کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان مظاہروں کے آغاز کے بعد اب تک کم از کم 14 ہزار کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔