وزیراعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے چند روز بعد ہی امریکہ نے پاکستانی ایف 16 طیاروں کا درست استعمال یقینی بنانے کے لیے ان کی نگرانی کی غرض سے تکنیکی اور لاجسٹک سپورٹ کی مد میں ساڑھے 12 کروڑ ڈالرز کی منظوری دے دی ہے، تاہم عسکری تجزیہ کار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ امریکہ ان طیاروں کی نگرانی کیسے کرے گا؟ دوسری جانب کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ یہ کام پہلے بھی کر رہا تھا۔
امریکی ڈیفنس سکیورٹی کو آپریشن ایجنسی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق: ’(تکنیکی سپورٹ) کی یہ ممکنہ فروخت ہر وقت نگرانی مہیا کرنے کے لیے امریکی عملے کی مسلسل موجودگی کے ذریعے امریکی خارجہ پالیسی اور قومی دفاع میں مدد فراہم کرے گی۔‘
تاہم سیاسی اور عسکری تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کا خیال ہے کہ منظور ہونے والے ساڑھے 12 کروڑ ڈالرز میں سے پاکستان کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’یہ رقم امریکی ہمارے جہازوں پر نظر رکھنے کے لیے خود ہی استعمال کریں گے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھائے: ’کیا امریکی یہاں پاکستان آکر ہمارے پاس موجود جہازوں کی نگرانی کریں گے؟ اور کیا پاکستان اس کی اجازت دے گا؟‘
’امریکی پہلے ہی نگرانی کر رہے تھے‘
دوسری جانب دفاعی امور کے ماہر جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کہ کہنا ہے کہ ’یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ یہ عمل پہلے سے جاری ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’امریکی شروع سے ان جہازوں کی نگرانی کر رہے ہیں، جس کا مقصد ان کا صرف دفاع کے لیے استعمال یقینی بنانا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا: ’پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستان پر فروری 2019 میں ایف 16 طیاروں کے استعمال کا الزام لگایا تھا، لیکن امریکہ اس الزام پر بالکل خاموش رہا تھا اور یہ خاموشی اس بات کا ثبوت تھی کہ امریکہ کو سب پتہ تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی پہلے سے ہی پاکستان کے پاس موجود ایف 16 جہازوں کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں اور انہیں معلوم تھا کہ حملوں میں یہ جہاز استعمال نہیں ہوئے۔‘
جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کے خیال میں امریکہ نے ساڑھے 12 کروڑ ڈالرز کی منظوری اسی نگرانی کے کام کو جاری رکھنےکے لیے دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’اس فیصلے سے امریکہ کی دفاعی صنعت کو فائدہ پہنچے گا۔ امریکی اسے ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور اس سے امریکہ کو انٹیلی جنس کی سرگرمیاں بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اگر جہازوں کی نگرانی کے لیے ان کے نمائندے یہاں موجود رہتے ہیں تو یہ ان کے لیے انٹیلی جنس سرگرمیوں کر مزید فعال بنانے کا اچھا موقع ہوگا۔ یہ انٹیلی جنس سرگرمیاں چین، روس اور خود پاکستان کے متعلق بھی ہو سکتی ہیں۔‘
جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کے مطابق: ’پاکستان کے جہازوں کی نگرانی کے لیے پیسے مختص کرنے کا فیصلہ امریکہ ہی کے لیے کثیر الجہت فوائد کا حامل ہوگا۔‘
نگرانی کے لیے انفراسٹرکچر بھی ضروریلاہور یونی ورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو ملنے والی ایف 16 طیاروں کی دوسری کھیپ میں شامل جہازوں کے استعمال پر بھارت سے متعلق پابندیوں کا ذکر موجود ہے۔ اسی لیے امریکہ ان کی نگرانی بھی کرتا ہے کہ کہیں ان کا غلط استعمال نہ ہو جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان ایف 16 طیاروں کو صرف اپنے دفاع کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ امریکہ پاکستان کو ان جہازوں کے جارحیت کے لیے، خصوصاً بھارت کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔‘
رسول بخش رئیس نے مزید بتایا کہ ’ایف 16 لڑاکا طیاروں پر نظر رکھنے کے لیے تکنیکی مہارت پاکستان منتقل کرنا ہوگی اور اس مقصد کے لیے میکانزم بنانے کے علاوہ پاکستان میں انفراسٹرکچر بھی کھڑا کرنا ہوگا۔‘
اس معاملے پر مختلف حکومتی وزرا اور عہدیداران کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم سب نے معذرت کرلی۔
پاکستان کو 80 کی دہائی میں چالیس ایف 16 طیارے ملے تھے، جن میں سے اب پاکستان کے پاس تقریباً 30 موجود ہیں۔