ندیم روکھڑی ایک نجی کمپنی میں ملازم ہیں۔ ان کی ماہانہ تنخواہ 15 ہزار روپے ہے اور پانچ بچوں، بیوی اور بوڑھے والدین کی ذمہ داری ان پر ہے۔
اس مہنگائی میں ان کے بجلی اور گیس کے بلز دس ہزار روپے سے زیادہ ہیں۔ تین ماہ سے وہ راشن ادھار پر خرید رہے ہیں۔ انہوں نے بچوں کو سکول سے بھی نکال لیا ہے، کیونکہ سکول جانے کے لیے موٹرسائیکل میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے نہیں ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوں گی، تب ہی بچوں کو سکول بھیجیں گے۔
وہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور اسے ناکافی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے سنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ریکارڈ نچلی سطح پر آ گئی ہیں۔
ان کے خیال میں صرف دس روپے فی لیٹر کے ریلیف سے وہ اپنے بچے سکول نہیں بھیج سکتے اور نہ ہی بجلی اور گیس کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔
حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم نہیں کی جاتیں۔
ان کے مطابق وہ اسحاق ڈار کے فیصلے کی تعریف اس وقت کریں گے جب پیٹرول کی قیمت میں 50 روپے فی لیٹر کمی ہو گی اور مارکیٹ میں بجلی، گیس اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم ہوں گی۔
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے کے مطابق پیٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس بڑھایا ہے یا نہیں۔ ’میری اطلاع کے مطابق پیٹرول پر لیوی تو مطالبے کے مطابق بڑھ چکی ہے لیکن ڈیزل پر تقریباً 25 روپے فی لیٹر لیوی ابھی بڑھانی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیزل اور پیٹرول پر سیلز ٹیکس بھی لگانا ہے۔
بقول حفیظ پاشا: ’میرا نہیں خیال کہ آئی ایم ایف کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف سٹاف 15 تاریخ سے کرسمس کی چھٹیوں پر جانا شروع ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اسحاق ڈار نے پہلے بھی جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی تھیں اس پر آئی ایم ایف کو اعتراض تھا۔ آئی ایم ایف کو ناراض نہیں کیا جا سکتا اور پہلے قیمتیں کم کر کے پھر بڑھانا کوئی دانشمندانہ فیصلہ بھی نہیں ہے۔‘
دوسری جانب لاہور چیمبر آف کامرس انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان صاحب نے بتایا کہ حکومت ابھی تک فیصلہ ہی نہیں کر پائی کہ معیشت چلانے کے لیے ان کی حکمتِ عملی کیا ہے۔
’اگر لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ہوتی تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم نہ کی جاتیں۔ یہ وقتی طور پر سیاسی ریلیف لینے والے فیصلے ہیں۔ اگلے ماہ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہیں اور وہ پہلے ہی آمدن کے اہداف حاصل نہ کرنے پر آٹھ سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس وقت یہ بہتر ہوتا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے ملکی آمدن بڑھائی جاتی۔ اس سے آئی ایم ایف پر بھی اچھا تاثر جاتا۔‘
خالد عثمان کے مطابق: ’عوام کو پیٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتوں کی عادت ہو چکی ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس وقت مسئلہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بلکہ دیوالیہ پن کا خدشہ ہے۔ اگر ملک دیوالیہ ہو گیا تو اس ریلیف کا کیا فائدہ ہو گا۔ یہ سری لنکا والی صورت حال ہے۔ وہاں بھی ملک چلانے کے لیے ڈالرز نہیں تھے اور حکومت پیٹرول سستا کر کے بیچ رہی تھی۔‘
ایکسچیبج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ بھی سمجھتے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کا یہ درست وقت نہیں ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ایک طرف ایل سیز کلیئر نہیں ہو رہیں اور دوسری طرف ڈیزل اور پیٹرول سستا کردیا گیا ہے، جس سے تیل کی درآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے اورانٹربینک میں ڈالر ریٹ بڑھ سکتا ہے۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظفر پراچہ کے مطابق: ’حکمرانوں کو پہلے ملک، پھر عوام اور پھر سیاسی پارٹی کے بارے میں سوچنا چاہیے لیکن یہاں الٹ ہے۔ سب سیاسی جماعتیں پہلے اپنی پارٹی کا فائدہ دیکھتی ہیں، پھر عوام اور پھر ملک کا فائدہ سوچا جاتا ہے۔ عمران خان نے بھی اپنی حکومت جاتے دیکھ کر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر دی تھیں، جس کا پارٹی کو فائدہ ہوا لیکن ملک کا شدید نقصان ہوا۔‘
اسی طرح سیالکوٹ چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے سابق صدر میاں نعیم جاوید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کا عملی فائدہ نہیں ہے کیونکہ حکومت سیاست کے ساتھ انتظامی محاذ پر بھی ناکام ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اگر قیمتیں کم کرنی ہیں تو تقریباً 50 روپے فی لیٹر تک کم کی جائیں تاکہ انڈسڑی کو فائدہ ہو۔ ملکی آمدن بڑھانے کے لیے برآمدات بڑھانے کا راستہ آسان کیا جائے اور آئی ایم ایف کو متبادل آمدن کما کر دی جائے۔‘
پاکستان بزنس کونسل کے مطابق یہ موقع آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کو واپس اپنی جگہ پر لانے کا تھا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کا نہیں۔ سیاسی مصلحت کی بنا پر کیے گئے فیصلوں سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا امکان زیادہ ہے۔
اس تمام صورت حال پر تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کشمکش میں ہے کہ کس طرف جائے۔ ’اگر ریٹ کم نہیں کرتی تو تنقید کی جاتی ہے اور اگر کم کر دے تب بھی کوئی خوش نہیں ہے۔ حکومت مجبور ہے اور کافی دیر سے عوام کو ریلیف بھی نہیں ملا ہے۔ ملکی معیشت کو تو شاید اس سے بڑا فائدہ نہ ہو اور آئی ایم ایف بھی اس فیصلے سے خوش نہیں ہو گا لیکن ن لیگ کے سیاسی کیپیٹل کو پہنچنے والے نقصان میں کمی آ سکتی ہے۔‘
حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرنے سے ملک کو نقصان زیادہ ہو گا۔ اس وقت آئی ایم ایف کو خوش رکھنا ضروری ہے تا کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ جائے۔