بنوں کینٹ کے باہر گذشتہ رات کیا صورت حال تھی؟

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے کینٹ میں انسداد دہشت گردی مرکز میں موجود ملزمان نے کچھ پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس علاقے کا آنکھوں دیکھا حال

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے کینٹ میں انسداد دہشت گردی مرکز میں موجود ملزمان نے کچھ پولیس اہلکاروں کو دو دن سے یرغمال بنا رکھا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق ان ملزمان کو اس مرکز میں تفتیش کے لیے لایا گیا تھا لیکن ملزمان نے پولیس اہلکاروں کا اسلحہ چھین کر انہیں یرغمال بنا لیا ہے۔

گذشتہ روز صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ’مرکز کے اندر موجود چند شدت پسندوں نے تفتیشی اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا اور انہیں یرغمال بنایا ہوا ہے۔ یہ شدت پسند محفوظ راستہ مانگ رہے ہیں۔‘

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے بھی اس مرکز میں اپنے چند ساتھیوں کی جانب سے سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کی تصدیق کی ہے۔ گذشتہ روز ٹی ٹی پی کے ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ مرکز میں ان کے چند ساتھیوں کی مدد سے اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔

اعلامیے میں لکھا گیا کہ ’مرکز میں موجود قیدیوں کو بحفاظت وزیرستان پہنچایا جائے۔‘

 اسی مرکز سے دو دن پہلے شدت پسندوں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں بحفاطت افغانستان منتقل کیا جائے۔

اس حوالے سے کوریج کے لیے پشاور سے بنوں روانہ ہوتے وقت میرے ذہن میں یہی خیال تھا کہ بنوں جانے والی انڈس ہائی وے پر واقع چیک پوسٹوں پر معمول سے ہٹ کر سکیورٹی ہوگی، تاہم راستے میں صرف دو جگہ ہی ہمیں روکا گیا اور صرف اتنا پوچھا گیا کہ ’کہاں سے آرہے ہوں اور کہاں جا رہے ہیں۔‘

میں پیر کی شب تقریباً دس بجے بنوں کے مین بازار پہنچا، جہاں مین بازار سے متصل کینٹ کی طرف جانے والی سڑک کو خاردار تار لگا کر بند کیا گیا ہے۔

ڈیوٹی پر موجود ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ ’کینٹ کو مکمل طور سیل کیا گیا ہے اور کسی کو بھی اندر جانے اور باہر آنے کی اجازت نہیں۔‘

کینٹ سے متصل بازار تو بند تھا تاہم کچھ نوجوان وہاں موجود تھے، جو شوارما اور برگر کی دکان چلاتے ہیں۔ باقی بازار سنسان تھا اور اکا دکا آوارہ کتے بازار میں نظر آ رہے تھے۔

میں نے جب ان نوجوانوں سے بنوں واقعے کے حوالے سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا: ’ہمیں بھی اسی طرح کچھ بتایا گیا ہے کہ طالبان آگئے ہیں، لیکن ہم تو اپنا کام کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

 اسی بازار کے چوکیدار احتشام، جنہوں نے روسی ساختہ بندوق اٹھا رکھی تھی، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بازار کینٹ سے تقریباً چند سو میٹر کے فاصلے پر واقعے ہے، جو صبح جلد ہی کھل جاتا ہے اور رات کو دیر تک کھلا رہتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ان سے پوچھا گیا کہ ’اس واقعے کے بعد بازار بند تو نہیں ہوا،‘ تو انہوں نے بتایا: ’بازار بند نہیں ہوا لیکن صرف ایک گھنٹہ پہلے لوگ دکانیں بند کر دیتے ہیں، کیونکہ گاہک نہیں ہوتے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’دن کے وقت بازار میں معمول کا رش ہوتا ہے تاہم لوگوں کے دل میں خوف ضرور موجود ہے۔ میں یہاں ساری رات چوکیداری کرتا ہوں اور اللہ کرے یہ معاملہ بحفاظت حل ہوجائے۔‘

میں نے بنوں کے دیگر بازاروں کا چکر بھی لگایا، لیکن جوس اور جنرل سٹور کی دکانوں کے علاوہ تمام ہوٹل اور کیفے بند تھے۔

راستے میں ایک جوس کی دکان پر چند نوجوانوں سے ملاقات ہوئی، جب ان سے کسی ریسٹورنٹ کا پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اب تو رات کے تقریباً 12 بج رہے ہیں تو اس وقت ریسٹورنٹ سارے بند ہوں گے اور یہ یہاں کا معمول ہے،‘ تاہم انہوں نے ایک کیفے کا ضرور بتایا کہ وہاں چائے مل سکتی ہے۔

رات دو بجے کوئی بھی ریسٹورنٹ ہمیں کھلا ہوا نظر نہیں آیا۔ ہوٹل پہنچنے پر استقبالیہ پر موجود ایک عہدیدار سے کھانے کا پوچھا تو جواب ملا: ’سر جی اب رات کے ڈیڑھ بجے بنوں میں کہاں آپ کو کھانا ملے گا۔ اب بس چائے پر گزارہ کریں۔‘

جس کے بعد ہم نے چائے کے ساتھ بسکٹ کھا کر سو جانا ہی مناسب سمجھا۔

بنوں کینٹ کی حدود میں داخل ہونے پر انٹرنیٹ نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ اس واقعے کے بعد تھری جی اور فور جی نیٹ ورک کو بند کر دیا گیا ہے تاہم موبائل سگنلز آ رہے تھے۔

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو عام لوگوں کے دلوں میں خوف ضرور موجود تھا اور بار بار یہی پوچھا جا رہا تھا کہ اس واقعے کا کیا ہوگا اور ہم ان کو یہی بتا رہے تھے کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے باقاعدہ موقف سامنے آنے پر عوام کو آگاہ کر دیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان