کیا پاکستان وائٹ واش شکست سے کچھ سیکھ سکتا ہے؟

انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے اس سیریزسے قبل کہا تھا کہ ’ہم ایک مثبت اور جارحانہ کرکٹ کھیلنے آئے ہیں۔‘ وہ آخری میچ کی آخری گیند تک اپنے الفاظ پر قائم رہے۔

20 دسمبر 2022 کی اس تصویر میں پاکستانی کپتان بابر اعظم ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش شکست کے بعد انگلش کپتان بین سٹوکس کے ہمراہ میدان سے باہر آتے ہوئے(اے ایف پی)

کراچی ٹیسٹ چوتھے دن کی صبح ہی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ انگلینڈ نے مزید 55 رنز بنانے کے لیے زیادہ وقت نہیں لیا اور نہ کوئی وکٹ گرنے دی۔

 انگلینڈ نے آٹھ وکٹ سے فتح حاصل کر کے اور تینوں ٹیسٹ جیت کر نئی تاریخ رقم کر دی۔

کراچی ٹیسٹ میں پہلی بار کوئی میچ اتنی تیزی سے پاکستان کی شکست پر ختم ہوا ہے اور شکست دینے والی بھی وہی ٹیم ہے جس نے سب سے پہلے اس گراؤنڈ پر پاکستان کے ناقابل شکست ہونے کا زعم ختم کیا تھا۔

انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے اس سیریزسے قبل کہا تھا کہ ’ہم ایک مثبت اور جارحانہ کرکٹ کھیلنے آئے ہیں۔‘ وہ آخری میچ کی آخری گیند تک اپنے الفاظ پر قائم رہے۔

بین ڈکیٹ نے وننگ شاٹ بھی چوکا مار کر بتا دیا کہ جیت سے زیادہ جیت کا مومینٹم اور حصول ہے۔

انگلینڈ نے آٹھ وکٹ سے ٹیسٹ جیت کر پاکستان کو بہت کچھ سکھانے کی کوشش کی ہے کہ جیت بلند حوصلوں کا نام ہے۔ اگر حوصلے پست ہوں تو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بے کار ہوتا ہے اور حوصلہ بلند ہو تو جیت خود چل کر قریب آجاتی ہے۔

پاکستان ٹیم اس سیریز میں ہوم ٹیم ہوتے ہوئے متعدد مسائل سے دوچار نظر آئی۔ ٹیم کی ترتیب اور تشکیل میں کوئی واضح حکمت عملی نطر نہیں آئی۔

پاکستان کی بیٹنگ لائن کمزور اور ارادوں سے خالی رہی جبکہ بولنگ ناتجربہ کاری کا شاہکار تھی۔

پاکستان نے اس سیریزکے لیے وہی بولنگ اتاری جو ٹی ٹوئنٹی میں تھی جس نے سٹیمنا اور بولنگ کی کمزوریاں عیاں کر دی۔

پاکستان ٹیم مینیجمنٹ ہٹ دھرمی کے باعث مڈل آرڈر بیٹنگ کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کرتی رہی۔

 محمد رضوان مسلسل ناکام ہونے کے باوجود پاکستان نے سرفراز احمد کو چانس نہیں دیا جس سے بیٹنگ مزید الجھتی رہی۔ ان کی کمزوری کو دبانے کے لیے پارٹ ٹائم آل راؤنڈرز کی شمولیت نے توازن مزید بگاڑ دیا۔

فہیم اشرف دونوں میچوں میں انتہائی پست درجے کے کھلاڑی رہے۔ وہ بولنگ اور بیٹنگ دونوں میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔

جس پچ پر پاکستان کے فاسٹ بولرز وکٹ کے لیے ترستے رہے وہاں انگلش فاسٹ بولرز 12وکٹس لے اڑے۔

کپتان بابر اعظم اگرچہ بیٹنگ میں کسی حد تک کامیاب رہے لیکن ان کے رنز کسی کام نہ آسکے وہ ان لمحات میں جلدی آؤٹ ہوگئےجب پاکستان کو ضرورت تھی۔

پاکستانی اوپنرز حیرت انگیز طور پر دوسرے درجے کی سپن بولنگ کے خلاف پریشان رہے اور رنز نہ کرسکے جبکہ انگلینڈ کے بلے بازکھل کر کھیلے اور سکور کیا۔

اگر پاکستان کے لیے کچھ مثبت رہا تو سپنر ابرار احمد دریافت ہوئے لیکن ان کی آمد جس دھواں دار انداز میں ہوئی وہ فتح گر نہ ہوسکی اس کے برعکس انگلینڈ نے بھی ایک لیگ سپنر روشناس کرایا۔ جو فتح گر بن گیا۔

ریحان احمد کی بولنگ میں زیادہ ورائٹی اور مستقل مزاجی نظر آئی۔

کراچی ٹیسٹ میں ہیری بروک کی اننگز سب سے زیادہ انفرادی رہی انہوں نے پاکستانی سپنرز کے خلاف قدموں کا استعمال کیا اوران کو موقع نہیں دیا کہ وہ گیند سپن کر سکیں یہی طریقہ اگر پاکستانی بلے باز بھی اپناتے تو نتیجہ بدل سکتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہیری بروک نے تین سنچریاں بنا کر مین آف دی سیریز کا ایوارڈ حاصل کیا جب ان سے ان کی کامیابی کا رازپوچھا گیا تو انہوں نے مثبت کرکٹ قرار دیا۔

انگلینڈ نے وائٹ واش کرکے تاریخ تو رقم کی لیکن پاکستان ٹیم کو ایک سبق ضرور دیا کہ جیت پچ کی مدد سے نہیں بلکہ اپنی جارحانہ سوچ اور کوشش سے ہوتی ہے۔

 انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس اس سیریز میں بہت منفرد نظر آئے وہ ہر اس موقع پر سب سے آگے ہوتےتھے جب ٹیم کو ضرورت ہوتی تھی۔ اگر تیز کھیلنے کے لیے خطرہ بھی مول لینا ہو تو سٹوکس سب سے آگے نظر آئے۔

فیلڈ میں بولنگ اور فیلڈنگ کی تبدیلیاں انگلینڈ کے لیے جیت کا سبب بن گئیں۔ وہ روایتی انداز کے بجائے ہر دفعہ کچھ نیا کرتے نظر آئے۔

اس کے برعکس بابر اعظم شکست کے خوف سے روایتی انداز سے آگے نہ بڑھ سکے۔

اگر اس سیریز کا ایک جملے میں جائزہ لیا جائے تو وہ یہی ہوگا کہ خوف کے ساتھ کوئی جنگ نہیں لڑی جا سکتی جب شکست کاخوف نہ ہو تو جیت خود قدموں میں آ گرتی ہے ورنہ اپنی ہر سرزمین پر روٹھ جاتی ہے۔

پاکستان ایک ہفتے کے بعد نیوزی لینڈ کا سامنا کرے گا۔ کیا یہ ٹیم کچھ کر سکے گی اس کا جواب بہت آسان ہے اگر ٹیم کوچ جارحانہ حکمت عملی بناتے ہیں تو کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے ورنہ پست حوصلوں کے ساتھ اپنی شکست کا بوجھ قدرت کے نظام پر ڈال کر بری ہوا جاسکتا ہے۔

کپتان بابر اعظم اگر اپنی کپتانی بچانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے خول سے باہر نکلنا ہو گا۔ اعداو شمار کے بجائے نتیجہ کے لیے کھیلنا ہو گا۔ باصلاحیت اور ذمہ داری لینے والے کھلاڑیوں کے ساتھ اترنا ہوگا کیونکہ جیت انہیں ہی ملتی ہے جوجیت سے کم پر سمجھوتا نہیں کرتے۔

(ایڈیٹنگ: فرخ عباس)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ