ڈپٹی کمشنر چمن عبدالحمید زہری نے کہا ہے کہ چمن سرحد کے باب دوستی پر پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ بارڈر حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ کے انعقاد پر اتفاق کیا گیا ہے۔
ایک بیان کے مطابق ڈی سی چمن نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر پر کشیدگی کے خاتمے کے لیے ایک دن قبل پاکستانی علما، قبائلی عمائدین اور تاجروں پر مشتمل 18 رکنی امن مصالتی جرگہ افغانستان گیا تھا جو کہ منگل کو چمن واپس پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی ملاقاتوں میں افغان حکام نے بہترین تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے جانے پر اتفاق کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا پاکستان وفد نے سپین بولدک میں اعلیٰ افغان حکام سے ملاقاتیں کی ہیں جس میں امن قائم کرنے کے لیے کافی پیشرفت ہوئی ہے۔
ڈپٹی کمشنر چمن نے کہا کہ افغانستان سے تمام حل طلب معاملات کی حل کے لیے ’افغان حکام کی جانب سے اچھا رسپانس ملا ہے۔‘
جرگے سے ملاقات کے دوران افغانستان کے مختلف وزارتوں کے اعلیٰ حکامِ بھی شامل تھے۔ جس پر انہوں نے کہا کہ باب دوستی پر پاک افغان بارڈر پر اعلی حکام کے درمیان تمام تنازعات کو حل کرنے کے لیے فلیگ میٹنگ کے انعقاد پر اتفاقِ کیا گیا ہے۔ باب دوستی پر فلیگ میٹنگ کے انعقاد کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔
فلیگ میٹنگ کے انعقاد کے لیے اعلیٰ سول و فوجی حکام چمن پہنچ چکے ہیں پاک افغان حکام نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ تمام حل طلب مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔
ڈپٹی کمشنر چمن نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے اعلی سول و فوجی حکام افغان بارڈر حکام سے فلیگ میٹنگ میں تمام سرحدی معاملات زیر بحث آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت سرحد پر کشیدگی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور کشیدگی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اور دونوں جانب سے رابطوں کا سلسلہ بحال ہر چکا ہے۔
ڈپٹی کمشنر چمن نے کہا: ’پاکستان نے ہر وقت افغانستان کے ساتھ پرامن اور ایک اچھے پڑوسی اور اسلامی ملک ہونے کے ناطے اچھے تعلقات کو اولیت دی ہے اور پاکستان افغانستان کے ساتھ بھائی چارے اور دوستی کے فضا میں تعلقات کا خواہاں ہے۔‘
دوسری جانب افغان حکام کی جانب سے بیان میں 20 دسمبر کو ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پیر کے روز امارت اسلامیہ افغانستان اور پاکستان کے ضلع چمن سے تعلق رکھنے والے متعدد علما، قبائلی عمائدین اور تاجروں کے درمیان ملاقات ہوئی۔
قندھار وزارت اطلاعات کے صوبائی دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں فرضی سرحدی لائن پر افغان اور پاکستانی فریقین کے درمیان حالیہ تشدد کے حوالے سے جامع بات چیت ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع چمن سے آئے ہوئے علمائے کرام، قبائلی عمائدین اور تاجروں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا: ’سپین بولدک اور چمن کے درمیان سرحد پر بعض اوقات پر تشدد واقعات رونما ہوتے ہیں، جب کہ دونوں طرف ایک ہی مسلمان قوم، ایک ہی قبیلہ و برادری کے لوگ آباد ہیں۔ اس نوع کے ملاقاتوں کے ذریعے ایسے ناخوش گوار واقعات کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
امارت اسلامیہ افغانستان کے نمائندہ وفد نے گفتگو کے دوران کہا کہ ان کی ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ دونوں جانب رہنے والے ایک ہی برادری کے مسلمان باشندے بھائیوں کی طرح رہیں۔
’ہم بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل پر یقین رکھتے ہیں۔ حالیہ واقعہ میں افغان فورسز نے اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے اقدامات کیے ہیں۔‘
پاکستان سے آئے ہوئے علمائے کرام، قبائلی عمائدین اور تاجروں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے اپنی حکومت کے ساتھ شیئر کرنے کا عزم ظاہر کیا
امارت اسلامیہ کے نمائندہ وفد نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان کی جانب سے کبھی بھی پرتشدد واقعات میں پہل نہیں ہوگی۔
گذشتہ دنوں چمن میں پاک افغان سرحد پر تعینات دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں افغانستان کی طرف سے طالبان اہلکاروں نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا اور ڈپٹی کمشنر چمن کے مطابق شہری علاقوں میں گرنے والے گولوں سے 14 افراد زخمی ہوئے۔
اس سرحد سے ہزاروں افراد روزانہ گزرتے ہیں، جس میں تاجر اور پاکستان میں علاج کے لیے آنے والے افغان شہری شامل ہیں۔
گذشتہ ماہ ایک بندوق بردار شخص نے اسی گزرگاہ پر ایک پاکستانی محافظ کو ہلاک کر دیا تھا، جس سے یہ سرحد ایک ہفتہ بند رہی تھی۔
پچھلے سال طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ سرحد متعدد بار بند ہو چکی ہے۔