ہم بڑے لوگ ہیں لیکن ہماری خوشیاں چھوٹی چھوٹی ہیں۔ امریکی صدر کی مسکراہٹ، توپوں کی سلامی، ایک مصافحہ، دو چار وعدے اور پانچ، چھ سپیئر پارٹس بس یہی کافی ہے ہمیں ساتویں آسمان پر پہنچانے کے لیے۔
کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہم ایک عمر رسیدہ پروفیسر کو کمزور بلکہ مکمل طور پر ناقص قانونی بنیاد پر ہتھکڑیاں لگوا لیتے ہیں اور پھر اپنے اس کارنامے پر اتراتے نہیں تھکتے۔ پھر جب حقائق منہ چڑانے لگتے ہیں تو فورا جھوٹ کی بیساکھیاں اٹھا لیتے ہیں تاکہ ہمارا لنگڑا لولہ بیانیہ مستند نظر آئے۔
امریکہ کے دورے کے بعد ہم پر خوشی کا جو دورہ پڑا اس کے اثر میں ملک میں بس سرکاری چھٹی کا اعلان نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ اس سفارتی ملاقات کو قومی تہوار کے طور پر ہی منایا گیا۔ خوشیوں کے گیت مبالغے کی ان حدوں کو بھی پار کر گئے جن سے آگے صرف گمراہی کا راج ہے۔
نقلی ٹوئٹر اکاؤنٹس سے تعریفی جملوں کی بارش شروع کروائی، پالشیوں کے لشکروں نے ہر میڈیا چینل پر دھاوا بولا اور بغل بچے مالکان کے مکمل تعاون سے خوش فہمی کی بے بنیاد خبروں کو کارہائے عظیم کے طور پر ملک بھر میں پھیلا دیا۔
پروفیسر عرفان صدیقی کو ہتھکڑیاں لگانے اور جیل بھیجنے کا معاملہ نسبتا ٹیڑھا تھا۔ اس گھناؤنے قدم کی نہ کوئی قانونی تُک تھی اورنہ کوئی انتظامی منطق۔ بیٹے کا مکان بیٹے نے کرائے دار کو دیا اور ایک بے بنیاد انتظامی آرڈر کو بروئے کار لا کر باپ کو گرفتار کر لیا، لہذا خفت اور ذلت سے بچنے کے لیے سب نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ’ہمیں تو پتہ ہی نہیں عرفان صدیقی کو کس نے گرفتار کیا، ہم اس کی تحقیق کروائیں گے۔‘
سچ اور حقیقت یا متوازن بحث کو زیر کرنے کی یہ کوشش اب ہمارے لیے نئی نہیں۔ ہم نے حالیہ دور میں ہر اہم موڑ پر جھوٹ کے چھڑکاؤ کے ذریعے سچ کے بیج کو تباہ کرنے کی کوشش ہوتے ہوئے دیکھی ہے۔
ہر مرتبہ نامعلوم خبر رساں ہرکارے اور چند جانے پہچانے کارندے اس قومی خدمت کو سرانجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر کامیاب آپریشن کرنے کے بعد اسلام آباد کے ہوٹلوں میں چائے کے پیالے سامنے رکھتے ہوئے خود کو شاندار کامیابی پر شاباش دیتے ہیں۔
نتیجتا عوامی سطح پر غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ ضعیف ہوگئی ہے۔ ہر دوسرا شہری یا تو اہم قومی معاملات پر غلط فہمیوں کا مارا ہوا ہے یا پھر حقیقت سے مکمل طور پر ناآشنا جھوٹ کے ہوائی قلعے میں مقید ہے۔
اب حالت یہ ہے بطور صحافی ہر روز آپ کو ایک ہی سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ’اصل بات کیا ہے؟‘ باوجود اس کے کہ سوال کرنے والے نے اصل بات اپنے سامنے ہوتے ہوئے سنی ہوتی ہے۔
آپ لاکھ حقائق اور حوالے بیان کریں، مثالیں دے دیں۔ یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ اصل بات بتائیں۔ ظاہر ہے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ جب ریاست عوام کو حقائق کی ڈگر سے ہٹانے کا تہیہ کر لے اور جب وہ اپنے مادی و تبلیغی وسائل اس کاوش کے لیے مختص کر لے تو عوام کے ذہن سے تذبذب اور شک کو نکالنا تقریبا ناممکن ہے۔
شاید اس لیے سچ بولنے اور لکھنے سے بھی کہیں زیادہ اہم وہ بحث ہے جو جھوٹ کے گرد ہونی چاہییے۔ ہمیں سچ تک پہنچنے کے لیے جھوٹ کو پہچانے کی صلاحیت پیدا کرنی ہے۔ جھوٹ کیا ہے؟ اس کی مختلف اقسام ہیں کیوں کہ ہر جھوٹ ایک سا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے متاثرین اور اہداف یکساں ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جھوٹ ایک کمپنی کی طرح ہے جو مختلف حالات میں مختلف مصنوعات بنا کر مختلف اقسام کی مارکیٹنگ کے ذریعے مختلف حجم کا منافع کماتی ہے۔
1۔ بے ضرر جھوٹ
یہ عام بات چیت میں استعمال ہوتا ہےاور روز مرہ کے کاموں میں سہولت حاصل کرنے کا موجب بنتا ہے۔ جھوٹ کی اس قسم کی دو مثالیں ہیں۔ ’میں گھر پر نہیں ہوں‘، ’مجھے آپ سے مل کے بہت خوشی ہوئی۔‘ اگر یہ مسلسل بولا جائے تو بولنے والے کی ذات آہستہ آہستہ اس سے ضرور متاثر ہوتی ہے۔
2۔ جھوٹے وعدے
وعدہ کر کے توڑنا، بھول جانا اور یاد دہانی پر رسمی افسوس کا اظہار کرنا جھوٹ کی دوسری قسم ہے۔ مسلسل ٹوٹتے ہوئے وعدے ایک منظم جھوٹ کی مثال ہیں، جس کے اثرات خاندان سے لے کر عوام تک پھیل سکتے ہیں۔ عموما اس قسم کے جھوٹ کے ساتھ بہانوں کا ایک بڑا ٹوکرا پایا جاتا ہے جس کے ذریعے وعدہ وفا نہ کرنے کی وضاحت سے شرمندگی کو چھپایا یا زائل کرنے کا انتظام ہوتا ہے۔
3۔ جعل سازی
یہ جھوٹ کی کافی سنجیدہ قسم ہے جس کے تحت افواہیں پھیلائی جاتیں ہیں اور ایسی کہانیاں تخلیق پاتی ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ جعلی دستاویزات، مقدمات، دعوے اور حوالے جھوٹ کی اس جنس کی مختلف مثالیں ہیں۔ معاشرے کو گمراہ کرنے میں اس قسم کا بنیادی کردار ہے۔
4۔ مبالغہ
بڑھا چڑھا کر بیان کرنا مبالغہ کہلاتا ہے۔ اس کی جڑ میں جھوٹ مگر پھل میں حقیقت کے کچھ ٹکڑے پائے جاتے ہیں۔ یہ دو کو بیس اور سو کو بلین بتانے کا ہتھیار ہے۔ پالیسیوں کی کامیابی اور شخصیت پرستی کی بنیاد مبالغے میں ہے۔
5۔ دھوکہ
جانتے بوجھتے ہوئے حقائق کے برعکس لوگوں کو الٹے راستے پر لگانا تاکہ ذاتی مفادات حاصل کیے جا سکیں، دھوکے کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا تعلق طاقت کی سیاست سے ہے جہاں پر یہ کھلے عام استعمال کیا جاتا ہے۔ معلومات نہ رکھنے والے اس کا بدترین شکار بنتے ہیں۔ اس کے موذی اثرات سے بچنے کے لیے کان اور آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں۔
6۔ منہ پر جھوٹ
اردو میں یہ سفید جھوٹ کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب وہ بدترین اور فاش جھوٹ ہے جو کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر آنکھ میں آنکھ ڈال کر بولا جائے۔ یہ اخلاقیات، شرم اور غیرت سے مکمل طور پر عاری ہوتا ہے۔ اس کا مقصد طاقت کے کھیل کو ہر قیمت پر جیتنا اور مدمقابل کو ہر صورت نیچا دیکھانا ہوتا ہے۔ چونکہ یہ منہ پر اعتماد کے ساتھ بولا جاتا ہے لہذا وقتی طور پر پُراثراور قابل یقین محسوس ہوتا ہے۔ یہ جھوٹ کی دنیا کا کوبرا ہے۔
7۔ بے اختیار جھوٹ
یہ جھوٹ ہمہ گیر اور ہمہ وقت ہے۔ اس کا نا تو کوئی خاص مقصد متعین ہے اور نہ کسی خاص حلقے کو نشانہ بنانا اس کے اہداف میں ہے۔ یہ نفسیات کی گہری تہوں میں سے جنم لیتا ہے اور ہر وقت حرکت کرتی ہوئی زبان اس کے تعفن کو چار اطراف پھیلا دیتا ہے۔
مگر جھوٹ سے متعلق بحث اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک آپ جھوٹوں کی اقسام نہ جان لیں۔ بعض جھوٹے بےضرر اور بعض موذی ہوتے ہیں۔ بعض مجبور اور بعض مریض۔ بعض تربیت، تنبہیہ اور تجربے کے پیش نظر یہ عادت چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ کے لیے یہ لاعلاج مرض ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ کینسر کے خلیوں کی طرح تیز رفتاری سے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات جھوٹوں کی یہ اقسام بیان کرتے ہیں:
1۔ پھڑباز / شیخ چلی
یہ لوگ مبالغے کو استعمال کر کے ہر وقت پھڑیں مارتے ہیں۔ اپنی تعریف سے لے کر دوسروں کی برائی ہر چیز میں مبالغے کی آمیزش کرتے ہیں۔ عموما ان کے سننے والے ان سے محضوض ہوتے ہیں اور ان کے سامنے خاموشی اختیار کر کے ان کی بکواس کو وقت گزارنے کا ایک بہانہ سمجھتے ہوئے ہضم کرتے ہیں۔ مسلسل شیخیاں بہرحال ایک نفسیاتی مرض کی نشاندہی بھی کرتی ہیں جس کا تعلق عموما ہلکی پھلکی احساس کمتری سے جوڑا جاتا ہے۔
2۔ مرضیاتی جھوٹے
یہ ماہر جھوٹے ہیں۔ جن کے لیے جھوٹ ایک مدافعاتی نظام بھی ہے اور ہمدردی حاصل کرنے کا ایک طریقہ بھی۔ یہ باتیں گھڑنے کے استاد ہوتے ہیں اور اکثر آپ سے نظر بچا کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے لمبی لمبی چھوڑتے ہیں۔ مشکل حالات میں ان کے جھوٹ کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے یعنی یہ حالات سے سیکھنے کے بجائے ان کو نئے جھوٹ بولنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔
3۔ عادتا جھوٹے
ان کے ذہن نیم تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ بچپن میں عدم توجہ یا تنقید اور بےجا لاڈ پیار کچھ بھی ان کو جھوٹ کی طرف ایسے مائل کر دیتا ہے کہ یہ قبر میں جھوٹ کو گلے لگائے اتر جاتے ہیں۔
جھوٹ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے کیوں کہ یہ ایک شخصیت کا عارضہ ہے۔ اپنے بارے میں غلط فہمی پر بنیاد گہری احساس کمتری سے گوندھا ہوا یہ مرض صرف ماہرین نفسیات کے ہاتھوں ہی درست ہو سکتا ہے۔ تقریر یا تعلیم اس پر بےاثر ہے۔
4۔ سماج دشمن جھوٹا
یہ دماغی خلل کی ایک خطرناک طرز ہے جس میں سے نکلا ہوا جھوٹ زہر آلود اور معاشرے کے لیے تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ان جھوٹوں کا مقصد اپنے ہدف کو نقصان پہنچانا ہے اور چوں کہ ان کے جھوٹ ایک گہری نفسیاتی بیماری کے توسط پیدا ہوتے ہیں لہذا ان کا بیانیہ مسلسل تباہی کو جنم دیتا ہے۔
یہ شرم سے عاری اور ہمدردی سے خالی جھوتے ہیں۔ مرتے دم تک اپنی عادت نہیں چھوڑتے بلکہ اس کو نیکی اور وصف جانتے ہیں۔
موجودہ حالات میں جب حقائق کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔ جھوٹ کے بارے میں جاننا قومی ضرورت بن گیا ہے، جو لوگ شک کی وجہ سے سچ کو نہیں مانتے ان کو جھوٹ کے بارے میں ادراک فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ نئے پاکستان میں سچ کو ماننا اتنا اہم نہیں جتنا جھوٹ اور جھوٹے کو پہچاننا۔