زمبابوے کے شکاری ران ٹامسن اپنی زندگی میں لگ بھگ پانچ ہزار ہاتھیوں، 50 دریائی گھوڑوں، 800 جنگلی بھینسوں، 40 تیندووں اور 60 شیروں کا شکار کر چکے ہیں اور انہیں جنگلی حیات کے اس ’قتلِ عام‘ پر ذرا بھر پچھتاوا نہیں۔
80 سالہ ٹامسن ذاتی ویب سائٹ پر اپنے ہاتھوں شکار ہونے والے ہزاروں جانوروں کی تفصیلات فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔
ٹامسن دو بچوں کے والد ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ افریقن نیشنل پارک میں بطور گیم رینجر گزارا۔
وہ خود کو دیے گئے ’خون کے پیاسے‘ کا لقب مسترد کرتے ہوئے اصرار کرتے ہیں کہ انہیں ’خون ریزی‘ سے جوڑنا غلط ہے کیونکہ انہیں اس ’قتلِ عام‘ کی کبھی ہوس نہیں رہی اور وہ صرف انسانی آبادیوں کی مدد کرنے کے لئے جانوروں کو ہلاک کرتے رہے ہیں۔
ٹامسن کا کہنا ہے: ’اگر ہم نے ان کی نسلوں کو کم نہیں کیا تو ان کی بڑھتی ہوئی تعداد نہ صرف انسانوں بلکہ ان کی اپنی آبادیوں کو تباہ کر دے گی۔‘
دوسری جانب، ٹرافی ہنٹنگ پر پابندی کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم CBTH کی تحقیقات کے مطابق 1980 کی دہائی میں افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد تقریباً 13 لاکھ تھی جو اب کم ہو کر صرف چار لاکھ رہ گئی ہے۔
2016 میں ہونے والی ہاتھیوں کی مردم شماری کے نتائج مزید خوفناک صورتحال بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق 18 ممالک میں سوانا نسل کے افریقی ہاتھیوں کی تعداد سات برسوں میں 30 فی صد کم ہو کر352,271 رہ گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹامسن خود کو ٹرافی ہنٹر یا جنگلی حیات کا دشمن نہیں سمجھتے اور ان کے خیال میں ان کا مقصد جنگلی حیات کی بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو کرنا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ باقاعدگی سے شکار نہیں کرتے اور صرف مدعو کرنے پر یہ کام کرتے ہیں۔ ’میں نے اپنی زندگی میں اس سلسلے میں کافی کام کیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ’خونریزی‘ ہے جبکہ ایسا نہیں، یہ صرف میرا فرض تھا۔‘
ٹامسن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جب میں کسی جانور پر رائفل تانتا ہوں تو صرف ایک بات سوچتا ہوں کہ مجھے اِسے ایک گولی سے ختم کرنا ہے۔‘
’مجھے کوئی شرمندگی نہیں۔ میرا ضمیر مطمئن ہے، کیونکہ یہ کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں مغرب سے نام نہاد ماہرین کا ایک گروپ مل گیا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ میں ایک یونیورسٹی سے ماحولیات کا تربیتی ماہر ہوں۔ میں اس بارے میں ان سے زیادہ جانتا ہوں۔‘
ٹامسن کا مزید کہنا ہے کہ جنگلات کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مغربی غیرسرکاری تنظیمیں پیسوں کے لیے جھوٹا پراپیگنڈا کرتی ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ افریقی ہاتھیوں کی بقا کو کوئی سنگین مسئلہ درپیش نہیں۔ ’جب آپ کے پاس ان کی معقول اور صحت مند آبادی موجود ہے تو اس کو ان کے مسکن کی گنجائش سے زیادہ بڑھانا ضروری نہیں۔‘