طالبان حکام نے وسطی صوبہ بامیان میں ایک فٹ بال میچ کو صرف اس لیے روک دیا کیوں کہ کھلاڑیوں نے ’غیر اسلامی‘ لباس یعنی نیکر پہن رکھے تھے۔
یہ واقعہ رواں ہفتے پیش آیا جہاں مقامی ذرائع نے نشریاتی ادارے ’آمو ٹی وی‘ کو بتایا کہ طالبان نے پیر کو بامیان شہر کے شاہد مزاری سٹیڈیم میں دو ٹیموں کے درمیان فٹ بال میچ میں خلل ڈالا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ طالبان فورسز نے میچ روکنے کے بعد کھلاڑیوں سے کہا کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے اسلامی ڈریس کوڈ کی پاسداری نہیں کی۔
بدھ کو طالبان نے طالبات کو یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، جب کہ منگل کو طالبان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں افغانستان کی تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں سے کہا گیا تھا کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جائے۔ اس واقعے کے بعد دنیا بھر سے طالبان پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
2021 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے سے قبل ملک میں خواتین کی فٹ بال ٹیم بھی موجود تھی اور اس نے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا۔
سٹیڈیم میں موجود ایک عینی شاہد نے آمو ٹی وی کو بتایا کہ طالبان کی وزارت ’امر بالمعروف او نہی عن المنکر‘ (اخلاقی پولیس) کے عہدیداروں نے کھیل روکنے کے بعد تمام کھلاڑیوں کو ان کے ’غیر اسلامی لباس‘ کی وجہ سے سٹیڈیم سے نکال دیا۔
ان نکالے گئے کھلاڑیوں نے فٹبال کا آفیشل لباس یعنی سپورٹس شرٹس، نیکر، موزے اور جوتے پہن رکھے تھے۔
ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ طالبان کے ایک رکن نے سٹیڈیم میں داخل ہونے پر چیختے ہوئے کہا: ’تم اسلامی لباس کی پابندی کیوں نہیں کر رہے؟ تم اپنے جسموں کو ڈھانپ لو۔‘
اس کے بعد کھلاڑیوں کو سٹیڈیم سے نکال دیا گیا اور انہیں کھیل جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ طالبان حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کھلاڑی اب غیر اسلامی لباس میں فٹ بال نہیں کھیل سکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل طالبان کے پہلے دور حکومت میں قندھار سے پاکستانی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی شارٹس پہننے پر گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ جولائی 2000 میں پیش آیا تھا جب پاکستانی کھلاڑیوں کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ سزا کے طور پر ان کے سر بھی منڈوا دیے گئے۔
پاکستانی ٹیم سرحدی قصبے چمن سے دوستانہ میچوں کی سیریز کے لیے قندھار گئی تھی۔
گذشتہ سال طالبان کے دوبارہ اقتدار میں لوٹنے کے بعد سے متعدد کھیلوں سے تعلق رکھنے والے افغان کھلاڑی پابندیوں کا شکار ہیں۔
رواں سال جولائی میں طالبان نے مغربی صوبہ ہرات میں مردوں کو باڈی بلڈنگ اور فٹنس جمز میں نوجوان لڑکوں (18 سال سے کم عمر) کے ساتھ ٹریننگ سے روک دیا تھا۔
طالبان نے کہا کہ نوعمر لڑکوں کی موجودگی مردوں کو ’جنسی طور پر راغب‘ کر سکتی ہے۔
طالبان نے خواتین اور لڑکیوں پر کھیلوں میں حصہ لینے یا جم جانے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔
جمز میں موسیقی پر پابندی عائد ہے جب کہ سپورٹس کلبز کی دیواروں پر کھلاڑیوں کے پوسٹرز لگانے تک پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
طالبان نے افغان کھلاڑیوں پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ خود کو اور اپنے کلبوں کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالیں۔
دوسری جانب انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طالبان کی جانب سے افغان خواتین کھلاڑیوں پر پابندیوں کی شدید مذمت کی ہے۔
آئی او سی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو کھیلوں تک رسائی 2024 میں پیرس اولمپکس میں افغانستان کی شمولیت سے مشرط ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ طالبان کے زیرانتظام افغانستان کو گیمز میں شرکت سے اس وقت تک روک دیا جائے جب تک کہ خواتین اور لڑکیوں کو ملک میں کھیل کی اجازت نہیں دی جاتی۔