امریکہ نے افغانستان میں طالبان حکمرانوں کی جانب سے ایک ملزم کو سرعام سزائے موت دیے جانے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’مایوس کن‘ قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے یہ پریشان کن ویڈیوز دیکھی ہیں جو حالیہ دنوں میں آن لائن گردش کر رہی ہیں۔‘
نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ طالبان 1990 کی دہائی کے دوران اپنے جابرانہ اور قدامت پسندانہ رویے کی سمت واپس جانا چاہتے ہیں۔ یہ تب بھی تمام افغانوں کے عزت کے خلاف تھا یہ اب بھی تمام افغانوں کی عزت کے خلاف ہے۔‘
انہوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کریں۔
سرعام پھانسی کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے، جب افغانستان کے لیے امریکی نمائندے تھامس ویسٹ اور طالبان انتظامیہ کے وزیر دفاع ملا یعقوب کی ابوظبی میں ملاقات ہوئی ہے۔
تھامس ویسٹ کے مطابق اس ملاقات میں انہوں نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں بدتر ہوتی انسانی حقوق کی صورت حال، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے غصب کیے جانے کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’ملک کا معاشی اور سماجی استحکام اور طالبان کی اندرونی اور بیرونی قانونی حیثیت کا انحصار ان کی جانب سے افغانستان کی ماؤں اور بیٹیوں سے کیے جانے والے سلوک پر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم طالبان کہہ چکے ہیں وہ تمام شرعی قوانین کا نفاذ جاری رکھیں گے، جن میں سنگسار کیا جانا، کوڑے مارنا اور چوری پر ہاتھ کاٹنا بھی شامل ہے۔
گذشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ طالبان کی عوام کے سامنے دی جانے والی پہلی سزائے موت ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں ’آنکھ کے بدلے آنکھ‘ جیسے اسلامی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ہم وطنوں کے سامنے عوامی سطح پر قصاص جیسے حکم کا اطلاق کریں۔‘
گذشتہ ماہ طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ججوں کو اسلامی قانون کے ان پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا تھا، جن میں سرعام پھانسی، سنگسار کرنا، کوڑے مارنا اور چوروں کے ہاتھ کاٹنے جیسی سزائیں شامل ہیں۔
اس کے بعد سے عدلیہ کی جانب سے کئی ’مجرمان‘ کو سرعام کوڑے مارے گئے ہیں لیکن صوبے فرح کے دارالحکومت میں بدھ کو سرعام دی جانے والی پہلی سزائے موت ہے، جس کا طالبان نے اعتراف کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حوالے سے بتایا تھا کہ مغربی صوبے فرح میں ایک شخص کو سزائے موت دی گئی، جن پر 2017 میں ایک شخص کو چاقو مار کر ہلاک کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا تھا کہ سزائے موت پر عمل درآمد کے وقت طالبان کے سینیئر حکام بھی موجود تھے۔
ادھر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے پہلی بار عوام کے سامنے ’قصاص الحدود‘ کے نفاذ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ترجمان سٹیفنی ٹریمبلے نے کہا: ’ہم پھانسی پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘
اس کے علاوہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن یو این اے ایم اے نے بھی طالبان سے سزائے موت ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا برانچ کی سربراہ دنوشکا دشنائیکے کے مطابق فاؤنڈیشن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’طالبان کی جانب سے عوام کے سامنے پھانسی کے افسوس ناک کیسز کا دوبارہ آغاز انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ طالبان کی طرف سے حقوق کی خلاف ورزی ایک پریشان کن حالیہ سلسلہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طالبان انسانی حقوق کا مذاق اڑا رہے ہیں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین پر توجہ نہیں دے رہے۔‘