تہران نے برطانیہ کی جانب سے ایرانی تیل بردار بحری جہاز پر قبضے کو 2015 میں ہونے والے اور اب مسائل کے شکار ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اس سے پہلے معاہدے میں شامل ملکوں کا ویانا میں اجلاس ہوا جس کا مقصد معاہدے کو مکمل طور ختم ہونے سے بچانا ہے۔ امریکہ پہلے ہی معاہدے سے الگ ہو چکا ہے۔
برطانوی حکام نے جولائی کے شروع میں جبرالٹر کے قریب برطانیہ کی سمندری حدود میں ایک ایرانی ٹینکر پر قبضہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ آئل ٹینکر شام پر عائد یورپی یونین کی پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔
بعد میں 19 جولائی کو ایرانی پاسداران انقلاب نے آبنائے ہرمز میں ایک برطانوی آئل ٹینکر کو عملے کے 23 ارکان سمیت قبضے میں لے لیا تھا۔ برطانیہ نے ایران کے اس اقدام کو جوابی کارروائی قرار دیا ہے۔
ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں شامل ملکوں کے ویانا میں اجلاس کے بعد ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس اراغچی نے میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ آئل ٹینکروں پر قبضے کا تنازع ایٹمی معاہدے پر مذاکرات سے جڑا ہوا ہے۔ اس معاہدے کو ’مشترکہ جامع لائحہ عمل‘ کا نام دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کے نائب وزیر خارجہ نے کہا:’ایٹمی معاہدے کے تحت ایران کو تیل برآمد کرنے کا حق ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بھی رکاوٹ ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اجلاس میں ایرانی تیل کی برآمد اور امریکہ کی جانب سے اسے مکمل طور پر روکنے کی کوششوں کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔
’میرے خیال میں حالات تعمیری ہیں اور مذاکرات اچھے رہے، لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے تمام مسائل حل کر لیے ہیں۔‘
ایران کے حوالے سے کشیدگی میں اضافہ گذشتہ برس اس وقت ہونا شروع ہوا تھا جب امریکہ نے جوہری ڈیل سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر نئی پابندیوں کا اطلاق کیا تھا۔
ایران نے رواں ماہ یورینیم افزودہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد سے تجاوز کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ایران کا کہنا تھا کہ یورینیم افزودگی کا مقصد ریکٹر کے لیے ایندھن پیدا کرنا ہے تاہم امریکہ اور یورپ کا ماننا ہے کہ ایسا جوہری پروگرام کی بڑھوتری کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
ہنگامی بنیادوں پر شروع کی جانے والی اس بات چیت کا مقصد حالیہ کشیدگی کو کم کرنا اور سنہ 2015 کی جوہری ڈیل کو مکمل ختم ہونے سے بچانا ہے۔