میانوالی میں دریائے سندھ کے کنارے آباد قدیمی و تاریخی شہر ’ماڑی‘ قیام پاکستان سے پہلے بہت بڑی تجارتی منڈی ہوا کرتا تھا۔
یہاں سے بحری بیڑوں اور جہازوں پر تجارتی مقاصد کے لیے نمک اور دوسری اشیا دریائے سندھ کے راستے بھیجی جاتی تھیں۔
کالاباغ سے 14 کلومیٹر دور واقع قدرتی مناظر اور معدنیات سے مالا مال چھوٹے سے اس پرسکون گاؤں میں پہاڑ کی چوٹی پر ’ہنومان کا قلعہ‘ ہے اور اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر دو مندر واقع ہیں۔
323 سے 332 قبل مسیح کے دوران یہ قلعہ چندر گپت موریہ کے پوتے راجہ کنشک کا پایہ تخت رہا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی کتاب ’Along The River Indus‘ میں اس پہاڑ پر موجود دو مندروں کا ذکر کیا ہے۔
کئی سو میٹر سفر طے کرتا دریائے سندھ لہراتا بل کھاتا یہاں آ کر میدانی علاقے میں داخل ہو جاتا ہے۔
کئی سال گزرنے کے بعد یہاں موجود ان مندروں کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے اور پانی کے تالاب اور تہہ خانوں کے ارد گرد خودرو جھاڑیاں اُگ آئی ہیں۔ اس پہاڑ کے نیچے نمک کی کانوں کی وجہ سے پہاڑ گرنے کا عمل بھی جاری ہے۔
ہنومان کے اس قلعے میں تہہ خانے بھی ہیں اور فوجیوں کی رہائش کے آثار بھی موجود ہیں۔ تہہ خانے دھنس چکے ہیں، جن میں مقامی لوگوں کے مطابق ’بڑا خزانہ دفن ہے۔‘
تقسیم ہند سے قبل یہاں ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ ان کے پرانے مکانات آج بھی ماڑی شہر میں موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈپٹی چیف جیالوجسٹ ملک محمد افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مورخین اور ماہرین کے مطابق یہاں خزانہ بھی موجود ہے جو آج تک کسی کو نہیں مل سکا مگر یہاں کمروں اور تہہ خانوں سے مقامی لوگوں کو قیمتی پتھر، قیمتی دھات سے بنے برتن اور دیگر اشیا بھی ملی ہیں۔‘
ماڑی شہر کے ان دو مندروں کا طرز تعمیر بھی کوہستان نمک کے پہاڑوں پر موجود دیگر مندروں کی طرح ہے جو چکوال کے علاقے کٹاس راج، ڈیرہ اسمعٰیل خان میں بلوٹ اور قلعہ کافر کوٹ میں موجود ہیں۔ ماڑی شہر میں موجود ان مندروں کو شیو منوتی مندر کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
ماضی میں مقامی لوگوں نے ’خزانے‘ کی تلاش میں کھدائی کر کے مندر اور قلعے کا حسن تباہ کر دیا ہے۔
انتہائی شاندار طرز تعمیر کا شاہکار یہ مندر سنہرے رنگ کے پتھروں سے بنا ہے، جو دھوپ میں سونے کی طرح چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان مندروں اور قلعے کی تعمیر کے لیے اٹک سے خاص طور پر یہ پتھر منگوایا گیا تھا۔