عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ نے جمعے کو 35 منٹ دورانیے کی ایک ریکارڈنگ جاری کی ہے، جس کے حوالے سے اس کا دعویٰ ہے کہ یہ گروپ کے سربراہ ایمن الظواہری کا بیان ہے۔
ایمن الظواہری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ رواں برس جولائی کے آخر میں ایک امریکی حملے میں مارے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی انٹیلی جنس گروپ ’سائٹ‘ نے کہا ہے کہ ریکارڈنگ کی تاریخ غیر واضح ہے اور اس میں سنائی دینے والے بیان سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ اسے کب ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ایمن الظواہری کی مبینہ موت کے بعد القاعدہ نے ان کے جانشین کا اعلان نہیں کیا تھا، تاہم ماہرین کے مطابق سیف العدل، جن کا اصل نام محمد صلاح الدين زيدان ہے، کو سب سے زیادہ مضبوط دعویدار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
ایمن الظواہری کے بارے میں امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک امریکی حملے میں مارے گئے تھے، جو 2011 میں تنظیم کے بانی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد شدت پسند گروپ کے لیے سب سے بڑا دھچکا تھا۔
الظواہری کی ’ہلاکت‘ کے بعد امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا تھا کہ الظواہری برسوں سے روپوش تھے اور انہیں تلاش کرنے اور ہلاک کرنے کا آپریشن انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس اداروں کے محتاط، صبر آزما اور مسلسل کام کا نتیجہ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ دو دہائیوں سے واشنگٹن کو مطلوب القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کے لیے ان کا روزمرہ کا معمول ہی جان لیوا ثابت ہوا، جب 31 جولائی کی صبح ایک امریکی میزائل نے انہیں ان کی بالکونی میں نشانہ بنا کر ہلاک کردیا۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے انٹرویوز پر مبنی امریکی میڈیا میں چھپنے والی رپورٹس کے مطابق القاعدہ کے 71 سالہ رہنما اپنے معمول کے مطابق اتوار (31 جولائی) کی صبح چھ بج کر 15 منٹ پر کابل کے محلے شیرپور میں اپنے تین منزلہ مکان کی بالکونی میں نمودار ہوئے، جو ان کے آخری لمحات ثابت ہوئے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وہ عام طور پر طلوع آفتاب کے بعد یہاں آتے تھے، مگر ہمیشہ اکیلے ہوتے تھے۔ امریکی انٹیلی جنس نے ان کے اسی معمول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپریشن کی منصوبہ بندی کی تاکہ نشانہ درست رہے اور کوئی اور جانی نقصان بھی نہ ہو۔
القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے بعد تنظیم کے سربراہ بننے والے ایمن الظواہری کو نائن الیون حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا تھا۔ وہ 2001 میں امریکی افواج کے ساتھ شدید فائرنگ کے دوران اسامہ بن لادن کے ساتھ مشرقی افغانستان کے پہاڑی سرحدی علاقے میں روپوش ہوگئے تھے۔
امریکہ کو کئی دہائیوں سے ان کی تلاش تھی اور ان کے سر پر 2.5 کروڑ ڈالر کا انعام مقرر تھا۔