ارشد شریف کے قتل کے واقعے کو تقریباً دو ماہ بیت چکے ہیں لیکن آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ انہیں کسی سازش کے تحت قتل کیا گیا یا محض ایک اتفاقی حادثے کے نتیجے میں وہ زندگی سے محروم ہو گئے۔
معاملہ روز بروز الجھتا جا رہا ہے لیکن ہم نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کے تفصیلی جائزے سے پانچ جواب طلب سوالات تلاش کیے ہیں۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر اطہر وحید اور انٹیلی جنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل عمر شاہد حامد شامل تھے جو تحقیق کے سلسلے میں کینیا اور دبئی بھی گئے۔
592 صفحات پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ہم ایسے پانچ نکات کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ فائرنگ کے بعد سپیشل یونٹ نے گاڑی کا پیچھا کیوں نہیں کیا؟
میڈیا رپورٹس کے علاوہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے بھی جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) کے ’غلط شناخت‘ والے موقف کا ذکر کیا لیکن تحقیقاتی ٹیم اس سے اتفاق نہیں کرتی کہ ارشد شریف کو ’غلط شناخت‘ کے سبب قتل کیا گیا۔
جی ایس یو کا موقف ہے کہ ناکہ لگا کر بیٹھنے کا مقصد لینڈ کروزر کو روکنا تھا۔ فائرنگ کے نتیجے میں خرم اور ارشد شریف کی گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا اور راستہ بھی ہموار نہ تھا کہ گاڑی بہت تیزی سے نکل جاتی۔ مگر اس سب کے باوجود جی ایس یو نے گاڑی کا پیچھا کرنے کی ذرا بھی زحمت نہیں کی۔
سپیشل یونٹ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ساتھی کیلون موٹوکو کے زخمی ہونے کی وجہ سے ان کی ساری توجہ فوری طبی امداد اور انہیں ہسپتال منتقل کرنے کی طرف مبذول ہو گئی سو انہوں نے گاڑی کا پیچھا نہیں کیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اندھیری رات میں ٹارچ کی روشنی جلا کر وہ گولیوں کے خول اکٹھے کرنے میں لگے رہے، تب ساتھی کو ہسپتال منتقل کرنے کی کوئی جلدی نہ تھی۔
سپیشل یونٹ کے کردار پر چھائے شکوک و شبہات کے بادل تب مزید گہرے ہوئے جب تحقیقاتی ٹیم کو موٹوکو سے ملنے نہیں دیا گیا۔ ابتدا میں کہا گیا کہ وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ جب ٹیم نے ہسپتال کا نام و پتہ پوچھا تو بتایا گیا ممکن ہے وہ گھر منتقل ہو چکے ہوں۔
موٹوکو زخمی ہونے کے باوجود فائرنگ کر سکتے تھے مگر چند روز بعد تحقیقاتی ٹیم سے ملاقات ممکن نہ تھی۔ ہے نا عجیب و غریب بات؟
2۔ ڈرائیور خرم کی سائیڈ اتنی محفوظ اور صاف کیسے رہی؟
ارشد شریف کی گاڑی پر نو گولیوں کے نشانات ہیں۔ ونڈ سکرین کی بائیں جانب ایک گولی کا سوراخ ہے، دو گولیوں کے سوراخ پیچھے بائیں جانب کی نشستوں پر ہیں، ایک گولی کا سوراخ پیچھے دائیں دروازے پر ہے، چار سوراخ ڈگی کی دائیں جانب اور ایک سامنے کے دائیں ٹائر پر ہے جس سے اس ٹائر کی ہوا نکل گئی تھی۔
اگر ہر قیمت پر گاڑی کو روکنا ہی تھا تو فائرنگ اس طرف ہونا چاہیے تھی جہاں ڈرائیونگ سیٹ ہے مگر خرم کی کھڑکی بالکل محفوظ رہی جس سے معاملہ مزید مشکوک ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ گاڑی میں خون کے چھینٹے پچھلی سیٹوں تک پہنچے مگر خرم کی سیٹ پر نشان تک نہ تھا۔ جیسا کہ تمام رپورٹس میں ذکر کیا گیا کہ وہ ایک کچا راستہ تھا اور گاڑی کا ایک ٹائر بھی ناکارہ ہو چکا تھا۔ ایسے میں آپ خود سوچیں کہ گاڑی کیسے ہچکولے کھاتی ہوئی فارم ہاؤس تک پہنچی ہو گی مگر خرم کی سیٹ بالکل صاف رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیقاتی رپورٹ میں خرم پر شکوک و شبہات اٹھاتے ہوئے ذکر کیا گیا ہے کہ ’فائرنگ پیٹرن سے لگتا ہے جب گاڑی پر گولیاں چلیں تب زیادہ امکان یہی ہے کہ گاڑی رکی ہوئی تھی مگر خرم کا کہنا ہے کہ میں نے گاڑی بالکل بھی نہیں روکی۔‘
خرم کی سیٹ پر خون کا چھینٹا تک نہ پڑنا اور اس سے بھی کہیں زیادہ ڈرائیور والی کھڑکی کا مکمل محفوظ رہنا ایسی سادہ بات نہیں جسے نظر انداز کیا جا سکے۔
3۔ وقار کے متضاد بیانات اور مشکوک کردار
وقار کے پولیس سے گہرے روابط اور اثر و رسوخ پر تحقیقاتی ٹیم نے بہت توجہ دی جس کے مطابق یہاں تک کہ ان کے کینیا کی نیشنل انٹیلیجنس سروس سے بھی خصوصی مراسم اور اعلیٰ افسران تک براہ راست رسائی تھی۔
رپورٹ کے مطابق وقار نے ارشد شریف کی متعلقہ چیزیں کینیا میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کے حوالے کرنے سے انکار کیا، جب حوالے کیں تو بہت سا اہم مواد مبینہ طور پر چھپانے کی کوشش کی۔
وقار کے مطابق انہوں نے ارشد شریف کو طارق وصی کے کہنے پر رہائش فراہم کی تھی۔ جب تحقیقاتی ٹیم نے ان سے سلمان اقبال اور طارق وصی سے ہونے والی بات چیت کا ریکارڈ مانگا تو ابتدائی طور پر وہ راضی ہوئے مگر پھر مکر گئے۔
وقار کی ایک بیوی شمائلہ سے ارشد شریف کی یو ایس بی ڈرائیوز ملیں جب کے بارے میں اس سے پہلے وہ کہہ رہے تھے کہ میں ارشد کی تمام چیزیں کینیا کی نیشنل انٹیلیجنس سروس کو دے چکا ہوں۔
تحقیقاتی ٹیم کے مطابق وقار چند سوالات کے تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔ جیسا کہ سلمان اقبال اور طارق وصی سے اس کا کیا تعلق ہے؟ ارشد شریف سے جان پہچان کے بغیر اتنے دن میزبانی کے فرائض کیوں انجام دیتے رہے؟
ارشد شریف کے آئی فون اور آئی پیڈ کینیا کی ایجنسی کے حوالے کیوں کیے جبکہ یہ چیزیں کسی بھی طرح ان کے کام کی نہ تھیں۔
خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے مطابق وقار کا قومی اور بین الاقوامی ایجینسیوں سے تعلق اور متضاد بیانات ان کے کردار اور اس واقعے کو مشکوک بناتے ہیں۔
4۔ ارشد شریف کو لگنے والی ایک مشکوک گولی
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ارشد شریف کو لگنے والی ایک ایسی گولی کا ذکر کیا ہے جو گاڑی میں پڑنے والے نشانات سے لگا نہیں کھاتی۔
ارشد شریف کے سر کی پچھلی جانب کمر کی طرف کر کے چھ سے آٹھ انچ کے فاصلے پر ایک گولی لگی جو سینے سے پار ہو گئی۔ یہ گولی نسبتاً قریب سے چلائی گئی تھی۔
تحقیقاتی ٹیم کے مطابق ارشد شریف کو لگنے والی یہ گولی سیٹ سے گزر کر نہیں گئی اور ایسا ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ارشد شریف کے قد کاٹھ کا شخص اگر معمول کے مطابق وی ایٹ کی سیٹ پر بیٹھے تو ممکن ہی نہیں کہ گولی سیٹ سے گزرے بغیر گردن سے چھ انچ نیچے لگ سکے۔
ایک شبہ یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روڈ بلاک پر پہنچنے سے پہلے ہی ارشد شریف مردہ حالت میں تھے۔
بی بی سی اردو کی تحقیق سے اس شبہ کو مزید تقویت ملتی ہے۔
خرم نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ فائرنگ والے مقام سے فارم ہاؤس تک جانے میں انہیں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا اور اس دوران ارشد شریف سانسیں لے رہے تھے۔ مگر فارم ہاؤس پر پہنچنے کے بعد جس شخص نے سب سے پہلے ارشد شریف کو دیکھا اس کے مطابق ان کا خون ’بہہ نہیں رہا تھا خشک ہو چکا تھا۔‘
بی بی سی اردو کے مطابق فارم ہاؤس کا دروازہ وہاں کے ملازم جوزف نے کھولا جن کا کہنا تھا ’یہ شاید دس بج کر 20 منٹ کا وقت ہوگا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی نہیں تھا، میں نے پسینجر سیٹ کا دروازہ کھولا تو سامنے ایک شخص مردہ حالت میں پڑا تھا۔ میں نے اس کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ اس کا خون جم چکا تھا اور وہ مرا ہوا تھا۔‘
’میں گھبرا گیا اور دروازہ بند کر کے اندر بھاگا تاکہ خرم سے پوچھ سکوں کہ یہ کون ہے۔ مگر خرم وہاں موجود نہیں تھا۔ میں اس کے بعد بھاگ کر اپنے کمرے کی طرف آ گیا اور اس وقت باہر نکلا جب گیٹ پر دوسری گاڑیاں (وقار احمد و دیگر) پہنچیں۔‘
ارشد شریف کو لگنے والی دو گولیوں میں سے ایک کا گاڑی کی پشت سے ٹکرائے بغیر ان کی کمر میں لگنا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کے وقت سے متعلق متضاد بیانات معاملے کی کجی مزید واضح کرتے ہیں۔
5۔ ارشد شریف کو دبئی سے کیوں نکلنا پڑا؟
دبئی کے ہوٹل ملینیئم البرشا کے کمرہ نمبر 243 میں بیٹھے ارشد شریف اپنے دوستوں عدیل راجہ، کاشف عباسی اور خاور گھمن سے کال پر بات کر رہے تھے کہ اچانک انہیں ریسیپشن سے اطلاع دی گئی کہ کوئی شخص انہیں ملنے آیا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو دیے گئے اپنے بیان میں اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال بتاتے ہیں کہ ’ارشد شریف نے انہیں 19 اگست کو کال کی اور بتایا کہ کوئی شخص ان سے مل کر گیا ہے جس نے ان سے کہا کہ وہ 48 گھنٹے میں وہاس سے چلے جائیں۔‘
ارشد شریف کے پاس کسی اور ملک کا ویزہ تھا نہ اتنے کم وقت میں نئے ویزے کا حصول ممکن تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق ارشد شریف نے برطانیہ جانے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے ویزے کے لیے انہیں بتایا گیا کہ انہیں اپنے ملک واپس لوٹنا پڑے گا۔ سلمان اقبال کے بقول ارشد شریف کے پاس دبئی سے نکل کر مالدیپ، سری لنکا یا کسی افریقی ملک جانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔
ارشد شریف نے اس روز وہ ہوٹل فوراً چھوڑ دیا۔ یقینا انہیں خطرہ تھا۔