میانمار کی فوجی حکومت کے زیر انتظام عدالت نے جمعے کو جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کو بدعنوانی کے مزید الزامات پر مجرم قرار دیتے ہوئے ان کی سزا میں سات سال کا اضافہ کر دیا، جس کے بعد ان کو سنائی گئی کُل سزا 33 برس ہوگئی ہے۔
ایک قانونی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ میانمار کی ایک عدالت نے معزول سویلین رہنما آنگ سان سوچی کو جمعے کو بدعنوانی کے الزام میں سزا سنائی اور اس طرح نوبیل انعام یافتہ رہنما کے خلاف 18 ماہ سے جاری مقدمے کی سماعت ختم ہو گئی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ آنگ سان سوچی پر ہیلی کاپٹر استعمال کرنے اور اس کی دیکھ بھال سے متعلق بدعنوانی کے پانچ الزامات تھے، جس سے ’ریاست کو مالی نقصان‘ اٹھانا پڑا تھا۔
جمعے کے فیصلے کے بعد اب نوبیل انعام یافتہ رہنما کو کُل 33 سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔
گذشتہ سال بغاوت کے بعد سے 77 سالہ سوچی کو کرپشن سے لے کر غیر قانونی طور پر واکی ٹاکی رکھنے اور کووڈ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے کے ہر الزام میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔
اس کیس سے واقف ایک قانونی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سوچی کو 18 ماہ کی عدالتی کارروائی کے بعد کل 33 سال کی سزا سنائی گئی تاہم انسانی حقوق کے گروپوں نے ان پر دھوکہ دہی کے الزامات کو مسترد کر دیا۔
جمعے کو سماعت کے دوران ان کی صحت بہتر نظر آ رہی تھی۔
ذرائع نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے خلاف اب تمام مقدمات ختم ہوچکے ہیں اور اب ان کے خلاف مزید الزامات نہیں ہیں۔
اس دوران صحافیوں کو عدالتی سماعت تک رسائی نہیں دی گئی اور بعد میں سوچی کے وکلا کو میڈیا سے بات کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
سماعت کے دوران فوج کے زیر انتظام دارالحکومت میں سوچی کو جیل کی طرف جانے والی سڑک ٹریفک کے لیے بند کر دی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذرائع نے بتایا کہ میانمار کے سابق صدر ون مائینٹ، جنہیں اس مقدمے میں سوچی کے ساتھ شریک ملزم ٹھہرایا گیا ہے، کو بھی اتنی ہی سزا سنائی گئی۔
ذرائع نے مزید کہا کہ دونوں رہنما ان سزاؤں کے خلاف اپیل کریں گے۔
مقدمے کی شروعات کے بعد سے سوچی کو صرف ایک بار ہی سرکاری میڈیا پر جاری تصاویر میں دیکھا گیا جو دنیا کو پیغامات پہنچانے کے لیے اپنے وکلا پر انحصار کرتی رہی ہیں۔
اس سے قبل رواں سال اپریل میں میانمار کی عدالت نے آنگ سان سوچی کو بدعنوانی کے ایک اور الزام میں مجرم قرار دیتے ہوئے پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔
آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی نے 2020 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن گذشتہ سال یکم فروری کو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اس کے بعد سوچی اور ان کی پارٹی اور حکومت کے کئی سینیئر ساتھیوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق فوج کے زیر اقتدار ملک میں نوبیل انعام یافتہ رہنما کے خلاف بدعنوانی کے کئی مقدمات زیر سماعت تھے۔
تاہم آنگ سان سوچی نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ساتھی سیاست دان سے لاکھوں ڈالر اور سونے کی صورت میں رشوت قبول کی تھی۔
آنگ سان سوچی کے حامی اور آزاد قانونی ماہرین 76 سالہ رہنما کو سیاست میں فعال کردار کی طرف لوٹنے سے روکنے اور فوج کے اقتدار پر قبضے کو جائز قرار دینے کے لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو ایک غیر منصفانہ اقدام سمجھتے ہیں۔
میانمار کی جمہوریت کی جدوجہد میں بہت سے لوگوں نے عدم تشدد کے اپنے بنیادی اصول کو ترک کر دیا ہے جہاں پیپلز ڈیفنس فورسز اور فوج کے درمیان ملک بھر میں باقاعدگی سے جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فوجی بغاوت کے بعد میانمار کی صورت حال پر اپنی پہلی قرارداد میں فوجی حکومت سے سوچی کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔