میانمار کی برطرف رہنما آنگ سان سوچی پر گھر میں ’غیر قانونی‘ واکی ٹاکیز (وائرلیس) رکھنے کے مقدمے میں بدھ کو باضابطہ فرد جرم عائد کر دی گئی۔ انہیں سوموار کو فوجی بغاوت کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
آج سوچی کے خلاف میانمار کے درآمدات اور برآمدات قوانین کی خلاف ورزی پر باضابطہ قانونی کارروائی شروع کر دی گئی اور عدالت نے ان کا دو ہفتوں کا ریمانڈ دیا ہے۔ سوچی کی جماعت کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف گھر میں کئی غیر قانونی واکی ٹاکیز رکھنے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ انہیں یکم فروری کو فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سینئیر سیاست دانوں کے ساتھ حراست میں لے لیا گیا تھا۔
سوموار کو میانمار کی نومنتخب پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس ہونا تھا۔ سوچی کی پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سوچی کو ان کی رہائش گاہ سے منتقل نہیں کیا گیا اور وہ اپنے گھر میں ہی نظر بند ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق سوچی کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کی زیادہ سے زیادہ سزا دو سال ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق یہ غیر رجسٹرڈ شدہ واکی ٹاکیز سوچی کے باڈی گارڈز کے زیر استعمال تھے۔
ملک میں فوجی جنتا کے اقتدار پر قبضے کے خلاف سول نافرمانی کے مطالبے زور پکڑنے لگے ہیں۔ نینشل لیگ فار ڈیموکریسی سے منسلک کئی ٹوئی نے اس مقدمے کی تصدیق اپنے فیس بک پیچ پر کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی صدر ون مائنٹ پر بھی نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ اس حوالے سے پولیس اور عدالتوں سے کیے جانے والے رابطوں میں کامیابی نہیں ہو سکی۔
میانمار میں فوج کے اقتدار پر قابض ہونے کا واقعہ ڈرامائی صورت حال اختیار کر چکا ہے جہاں ملک جمہوریت کی جانب گامزن تھا۔ فوج کے اقتدار پر قابض ہونے سے اس جنوب ایشیائی ملک میں فوجی جرنیلوں کی ملکی سیاست پر گرفت کی نشاندہی ہوتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 75 سالہ آنگ سان سوچی نے میانمار میں 2015 میں ہونے والے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد ملک میں 50 سال بعد سول حکومت قائم کی تھی۔ آنگ سان سوچی، تحریک آزادی کے رہنما آنگ سان کی صاحبزادی ہیں۔ ان کے والد کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب سوچی کی عمر دو سال تھی۔ انہوں نے اپنی جوانی کا بڑا حصہ بیرون ملک میں گزارا۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ان کی ملاقات برطانوی ماہر تعلیم مائیکل ایرس سے ہوئی جنہوں نے ان کے ساتھ شادی کر لی۔ ان کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے اور انہوں نے آکسفورڈ میں رہائش اختیار کرلی۔
وہ 1988 میں میانمار واپس پہنچیں جو اس وقت ملک کا دارالحکومت تھا۔ ان کی آمد کا مقصد قریب المرگ والدہ کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ ملک میں قیام کے دوران سوچی طلبہ مظاہروں میں شریک ہونے لگیں جو 1962 میں حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوج کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ممکن تھا کہ ایک اچھی مقرر سوچی تحریک کی قیادت سنبھالنے کے لیے امیدوار بنتیں لیکن طلبہ کے مظاہروں کو کچل دیا گیا، ان کے قائدین کو قتل کر دیا گیا یا پھر وہ جیل میں ڈال دیے گئے۔ جلد ہی سوچی کو بھی ان کے جھیل کے قریب واقع خاندانی گھر میں نظر بند کر دیا گیا جہاں وہ 2010 تک رہیں۔
اس دوران وقفے وقفے سے ان کی نظربندی ختم بھی کی جاتی رہی۔ سوچی نے جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کی قیادت کرنے کی خاطر میانمار میں قیام کا فیصلہ کیا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سوچی اپنی قید کے دنوں میں فوج پر سخت تنقید کرتی رہی ہیں لیکن جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیت سے سیاستدان کے سفر کے بعد انہوں نے نہ صرف فوجی جرنیلوں کے ساتھ مل کر کام کیا بلکہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ان کے کریک ڈاؤن کا دفاع بھی کیا جس سے عالمی سطح پر ان کی ساکھ متاثر ہوئی۔
فوج نے اقتدار پر قبضے کے بعد بیان جاری کیا تھا کہ وہ ملک میں ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کیے رکھے گی، جس کے بعد انتخابات کروائے جائیں گے اور اقتدار فاتح جماعت کے سپرد کر دیا جائے گا۔
آنگ سان سوچی کی جماعت نے ملک بھر میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف پر امن مظاہروں کی کال دی تھی۔ منگل کی رات ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں مظاہرین نے اپنی گاڑیوں کے ہارن اور برتن بجا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ منگل کو فوج کے حامیوں نے بھی ایک مظاہرہ کیا جس میں تین ہزار کے قریب افراد شریک تھے۔
نومبر 2020 میں میانمار میں ہونے والے عام انتخابات میں سوچی کی جماعت نے 476 میں سے 396 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ فوج کی حمایت یافتہ یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیوپلمنٹ پارٹی نے صرف 33 نشستیں جیتی تھیں۔