پاکستان ایک تضادات سے بھرپور معاشرہ ہے اور یہ تضادات ہماری جڑوں میں گہرائی تک بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی ایک تضاد کاغذوں اور حقیقی پاکستان میں نمایاں فرق بھی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کے سیاستدان بہت کرپٹ ہیں مگر اب تک کتنے سیاستدان ہیں جنہیں کرپشن پر سزا دی گئی ہے۔ ایک بھی نہیں نواز شریف بھی کرپشن پر نہیں بلکے اقامہ پر اندر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم کاغذ پر سیاستدان کرپٹ نہیں ہیں۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے نہ صرف سیاستدان بلکہ معاشرے کے زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی طور پر کرپشن کا حصہ ہیں۔
تقریباً سارے سیاستدان کہتے ہیں کہ پچھلے الیکشن میں سیاسی انجینرنگ ہوئی اور کچھ حکومتی اداروں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ان کے پسندیدہ لوگوں کو الیکشن جتوایا گیا۔ میں اس بات پر قائل ہوں کے ایسا ہوا اسی لیے اس بات کا تقاضہ کیا کہ پارلیمانی کمیٹی بنا کر اس کی حقیقت معلوم کی جائے۔
سیاستدان کہتے ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں ہے اور ان پر غلط الزامات ہیں اور میڈیا ٹرائل کے بجائے عدالتوں میں اس بات کو ثابت کیا جائے۔ اسی طرح میرے کچھ بہت ہی اچھے مہربان فوجی جرنل کہتے ہیں کہ فوج نے کوئی سیاسی انجینرنگ اور الیکشن میں دھاندلی نہیں کی اور یہ غلط الزام ہے۔ وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ میڈیا ٹرائل کے بجائے ثبوت فراہم کیے جائیں۔ اگر ان دونوں کی بات مان لی جائے تو کاغذوں میں نہ پاکستان میں کسی نے کرپشن کی اور نہ فوج نے سیاسی انجینرنگ کی۔ مگر کیا کوئی بھی شخص حقیقی پاکستان میں یہ ماننے کو تیار ہے کہ یہ بات درست ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاستدان اور فوج دونوں موجودہ جمہوری نظام کو بنانے والے ہیں اور دونوں یہ بات جانتے ہیں کہ کام ایسے کیا جائے کہ ثبوت کوئی نہ ہو۔ اکثر احکامات زبانی طور پر دیئے جاتے ہیں جس کو پکڑنا مشکل ہے۔ الیکشن سے پہلے بہت لوگوں نے یہ الزام لگایا کہ انہیں ٹیلیفون پر کہا گیا کہ وہ تبدیلی برگیڈ کا حصہ بن جائیں۔ یہ بھی کچھ لوگوں نے کہا کہ ٹیلیفون پر احکامات ملے کے الیکشن نتائج کو جمع کرنے کا جو جدید نظام بنایا گیا تھا اسے بند کر دو۔ آج کل بھی لوگ کہتے ہیں کہ ٹیلیفون پر حکم ملتا ہے کہ فلاں کا انٹرویو چلانا ہے اور فلاں چینل کو بند کرنا ہے۔ کاغذی پاکستان میں بہت کم لوگ امیر ہیں اور اسی لیے وہ ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مگر حقیقی پاکستان میں پیسے کی فراوانی ہے اور لوگوں کے پاس کئی کئی مہنگی گاڑیاں اور گھر ہیں۔ یعنی کاغذ پر سب اچھا ہے اور اس کی اہم وجہ قوانین پر عمل نہ کرنا ہے۔ یہ ہمارے قومی رجحانات کا حصہ ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ایک نہیں دو پاکستان ہیں ایک فرضی جو کاغذوں میں ہے اور ایک حقیقتی جس کا سامنا میں اور آپ روز کرتے ہیں۔ کاغذوں میں بے تحاشا اور بہت اچھے قوانین ہیں مگر حقیقت میں لاقانونیت ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔
بچپن سے ہمیں یہ تربیت دی جاتی ہے کہ قانون پر عمل بیوقوف لوگ کرتے ہیں اور عقلمند وہ ہے جو اپنا کام نکال جائے۔ یعنی ہمیں تربیت ہی یہ دی جاتی ہے کہ قوانین بیوقوفوں کے لیے ہیں جبکہ عقلمند اور طاقتور اس سے مستثنی ہیں۔ اب کون شخص ہے جو اپنے آپ کو بیوقوف کہلوانا چاہے گا۔ یہی نہیں ہم میں صبر کی بھی کمی ہے اور ہم ہر کام جلدی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ٹریفک کی بتی سرخ ہو بھی تو لوگ آگے نکل جاتے ہیں۔ جب ہم پاسپورٹ یا شناختی کارڈ بنانے جاتے ہیں اس وقت بھی ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہمارا کام سب سے پہلے ہو چاہے اس کے لیے ضوابط کو ہی کیوں نہ توڑنا پڑے۔
میں عمران خان کو تبدیلی کا لیڈر اس لیے نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اپنے پیرو کاروں اور خاص طور پر نوجوانوں کی کوئی تربیت نہیں کی۔ الیکٹیبل بھی وہ لوگ کہلاتے ہیں جو الیکشن میں دھاندلی پر مہارت رکھتے ہوں اور اپنی پسند کی ووٹ گنتی پر عبور رکھتے ہوں۔ کیا ایسا لیڈر اور ایسی ٹیم نئی نسل کو اور قوم کو صحیح راستے پر لے جا سکتے ہیں؟ انسانی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا۔
اب ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم ایک انتہائی کرپٹ، قانون سے ماورا اور بےانصاف معاشرے میں رہ سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی نظر میں اور دنیا کی نظر میں ایک اچھا معاشرہ بننا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ کاغذی اور حقیقی پاکستان کے درمیان فرق کو مٹانا ہوگا۔ اس عمل کا پہلا قدم یہ ہوگا کہ ہم اپنے معاشرے کو ایک نئی طرح سے مرتب کریں۔ اس عمل میں پہلا قدم سیاستدانوں کو اٹھانا ہوگا اور ایک نئی جمہوریہ کی تعمیر کے لیے لوگوں کا اکھٹا کرنا ہوگا۔ اصلاحی تحریک ہمیشہ چند لوگوں سے شروع ہوتی ہے اور پھر اسے گھر گھر پہنچانا ہوتا ہے۔