گلگت کی فضائیں اپنے روایتی سکون اور خاموشی کے لیے مشہور ہیں، لیکن اب کچھ عرصے سے سکون کی یہ چادر ایک کرخت آواز سے تار تار ہو گئی ہے، اور یہ آواز ہے رکشے کی۔
آزادی سے اب تک گلگت بلتستان میں رکشے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد رہی ہے، جس کی وجہ یہ یہاں کی وادیوں کا سکون برقرار رکھنا تھا۔
لیکن اب یہاں چنگ چی رکشوں کی آمد میں اضافہ ہو گیا ہے اب گلگت شہر اور مضافات میں سینکڑوں رکشے سڑکوں پر چلتے دکھائی دیتے ہیں جن میں سفری اور مال بردار رکشے شامل ہیں۔
الطاف حسین گلگت کے نواحی علاقے دنیور کے علاقے میں دو سالوں سے چنگ چی چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شروع میں کام اچھا تھا اب رکشوں کی تعداد میں اضافہ ہونے سے پہلے جیسی آمدنی آب نہیں رہی کیوں کہ روز بروز ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
ماحولیاتی صحافی امتیاز علی تاج کہتے ہیں کہ ’چنگ چی رکشوں کی گلگت بلتستان آمد سے جہاں لوگوں کو سفری سہولیات اور روزگار کے مواقع میسر آئے ہیں تو دوسری طرف آن سے صوتی آلودگی بڑھ رہی ہے، رکشوں سے پیدا ہونے والے شور سے علاقے میں پر سکون فضا متاثر ہو رہی ہے اور آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے اگر حکومت اربن ٹرانسپورٹ کا نظام متعارف کرائے تو ان رکشوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔‘
سلطان شعیب گلگت شہر کے رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چنگ چی رکشوں کی وجہ سے گلگت میں ٹریفک جام میں اضافہ ہو رہا ہے جگہ جگہ رکشوں کی وجہ سے ٹریفک کے مسائلِ بڑھ رہے ہیں۔ ان سے جہاں سہولیات میسر آ رہی ہیں وہی ٹریفک کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں گلگت بلتستان کو رکشہ فری علاقہ ہونا چاہیے یہاں کا قدرتی حسن ان رکشوں سے متاثر ہو سکتا ہے۔
محمد علی برسوں سے ہاتھ ریڑھی پر مزدوری کرتے چلے آرہے تھے، لیکن پھر انہوں نے مال بردار رکشہ خرید لیا اور وہ تکلیف دہ صورتحال ختم ہو گئی جس کا وہ برسوں سے سامنا کرتے چلے آ رہے تھے۔
ڈائریکٹر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ابوبکر صدیق نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں چنگ چی رکشوں کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔ ’ہم نے رجسٹریشن سے قبل محکمہ تحفظ ماحولیات کو آس سلسلے میں خط لکھا تو انہوں نے فور سڑوک چنگ چی رکشوں کو رجسٹریشن کے لیے این او سی جاری کر دیے، جس کے بعد ان رکشوں کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔‘
محکمہ تحفظ ماحولیات کے ڈائریکٹر شہزاد حسین شگری نے کہا کہ ’گلگت بلتستان میں ٹو سٹروک انجن والے رکشوں پر پابندی عائد ہے کیوں کہ یہ رکشے قدرتی ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن گذشتہ چند سالوں سے ٹیکنالوجی نے ترقی کر لی ہے اور اب جو رکشے بن رہے ہیں وہ فور سڑوک انجن والے ہیں جن سے ماحول کے متاثر ہونے کے خطرات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے ان کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔‘