پانچ ماہ سے جاری مظاہرے: کیا ایران نرمی برتنے پر غور کر رہا ہے؟

مبصرین کے خیال میں ایران میں جاری پرزور مظاہروں کی لہر کا خاتمہ کرنے کی حکمت عملی پر ایرانی رہنما متفق دکھائی نہیں دیتے۔

مہسا امینی کی موت کے بعد یکم اکتوبر 2022 کو سینکڑوں مظاہرین امریکہ میں  مین ہٹن سکوائر میں جمع ہو کر ایرانی حکومت کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں (اے ایف پی)

مبصرین کے خیال میں ایران میں جاری پر زور مظاہروں کی لہر کا خاتمہ کرنے کی حکمت عملی پر ایرانی رہنما متفق دکھائی نہیں دیتے۔ ایک طرف تو وہ جبر کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب مفاہمت کے اقدامات بھی جاری ہیں۔

ایران اس وقت 1979 کی طرز کے انقلابی مظاہروں کی زد میں ہے، جو سکارف مناسب انداز میں نہ پہننے کے معاملے پر 22 سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی تحویل میں 16 ستمبر 2022 کو موت کے بعد شروع ہوئے اور اب تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نادر ہاشمی، جو کہ ڈینور یونیورسٹی میں سینٹر فار مڈل ایسٹ سٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں، کہتے ہیں: ’ایرانی حکومت کی طرف سے ہمیں جو متضاد پیغامات مل رہے ہیں۔ وہ اس بات پر اندرونی بحث کا عندیہ دیتے ہیں کہ جاری مظاہروں سے کیسے نمٹا جائے۔

’زیادہ تر آمرانہ حکومتوں میں، ایسے ’ہاکس اور ڈوو (عقاب اور فاختہ)‘ ہوتے ہیں جو اس بات سے متفق نہیں ہوتے کہ بحرانوں کے دوران ریاست کو کتنا جابرانہ ہونا چاہیے۔‘

موت کی سزا پانے والے متعدد مظاہرین کے دوبارہ ٹرائل کی منظوری اور سخت اختلاف کرنے والے افراد کی حراست سے رہائی، اس بات کی علامت ہیں کہ ایرانی حکام اب کچھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن ہفتے کے روز کچھ سخت گیر اقدام بھی سامنے آئے جب ایران نے احتجاج سے متعلق بدامنی کے دوران ایک فوجی اہلکار کو قتل کرنے پر دو افراد کو پھانسی دی۔

عالمی دنیا خاص طور پر امریکہ نے اس پر روایتی ردعمل دکھاتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے سوشل میڈیا پیغام میں کہا: ’یہ پھانسیاں حکومت کی احتجاج کو دبانے کی کوششوں کا ایک اہم جز ہیں۔ ہم ایران کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کی جواب دہی کے لیے شراکت داروں کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

حکام کے مظاہروں کو روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کی وجہ سے اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

عدلیہ کے مطابق، بہت سے لوگوں کو سکیورٹی فورس کے ارکان کو قتل کرنے یا ان پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور 14 قیدیوں کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے سزائے موت میں سے کچھ کی سزا کو معطل کر دیا اور کل چار افراد کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ عدلیہ نے 14 میں سے چھ کے لیے دوبارہ ٹرائل کا بھی اعلان کیا ہے۔

امریکہ میں مقیم ایرانی سیاسی تجزیہ نگار مہرزاد بروجردی نے کہا کہ ایران کی کشمکش ایک ’سیاسی حساب کتاب‘ کی عکاسی کرتا ہے۔

’ وہ جانتے ہیں کہ اجتماعی پھانسی مزید لوگوں کو سڑکوں پر لے آئے گی اور انہیں مزید مشتعل کرے گی۔ دوسری طرف وہ یہ اشارہ دینا چاہتے ہیں کہ وہ مظاہرین کو پھانسی دینے سے گریزاں نہیں ہیں تاکہ لوگ خوفزدہ ہوں۔‘

برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹرن اینڈ اسلامک سٹڈیز کے ڈائریکٹر انوش احتشامی نے کہا کہ مقدمے کی سماعت جزوی طور پر بڑھتے ہوئے غیر ملکی اور ملکی دباؤ کی عکاسی کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افشین شاہی، برطانیہ کی کیلی یونیورسٹی میں مڈل ایسٹرن سٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، ان کا کہنا تھا: ’بعض اوقات حکام کی طرف سے ’نرمی‘ کا مظاہرہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر مزید دھڑے بندی کو روکنے کی کوشش ہے کیونکہ اس کے کچھ ممبران خونریزی سے الگ ہو گئے ہیں۔‘

دسمبر کے اوائل میں، پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے کہا کہ اخلاقی پولیس کو ’ختم کر دیا گیا ہے۔‘ تاہم کسی اور نے اس کی تصدیق نہیں کی۔

تجزیہ نگار ہاشمی نے کہا کہ یہ اعلان اندرونی بحث کی عکاسی کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’حکمران حکومت کا کم از کم ایک طبقہ‘ خواتین کے لباس کے ضابطے کو نافذ کرنے کے لیے کم ظلم  کے استعمال حمایت کرتا ہے۔

ہاشمی کے بقول: تاہم حکومت نے تاریخی طور پر ’جب ضرورت ہو رعایت دینے‘ کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ حکومت 44 سال تک زندہ رہی ہے کیونکہ یہ بہت ذہین، بہت چالاک، بہت میکیاویلیئن ہو سکتی ہے، اس لحاظ سے کہ اسے زندہ رہنے کے لیے کیا کرنا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا