پاکستان اور اقوام متحدہ پیر سے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں مشترکہ طور پر ایک بڑی کانفرنس کی میزبانی کر رہے ہیں، جس کا مقصد پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے بعد تعمیر نو کے لیے عالمی امداد حاصل کرنا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق توقع ہے کہ کانفرنس ایک بڑی آزمائش ثابت ہو گی کہ کون سا ملک ماحولیاتی آفات کی صورت میں مالی امداد فراہم کرتا ہے۔
گذشتہ سال ستمبر میں پاکستان میں مون سون کی ریکارڈ کی بارشوں اور گلیشیئر پگھلنے سے تقریباً 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے اور قدرتی آفت کے نتیجے میں کم از کم 1700 ہلاکتیں ہوئیں۔
اب زیادہ تر پانی اتر چکا ہے لیکن تعمیر نو کا کام، جس کا تخمینہ تقریباً 16 ارب 30 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے، جس کے تحت لاکھوں مکانات اور ریل کی ہزاروں کلو میٹر طویل پٹڑی تعمیر کی جائے گی، حال ہی میں شروع ہوا ہے۔
دوسری طرف مزید لاکھوں افراد کے غربت کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔
پاکستانی وفد جس کی قیادت وزیر اعظم شہباز شریف کر رہے ہیں، کانفرنس میں بحالی کا ’فریم ورک ‘پیش کرے گا، جس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں بھی خطاب کرنے والے ہیں۔
گوتریس جنہوں نے ستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا، اس سے قبل پاکستان میں ہونے والی تباہی کو ’ماحولیاتی قتل عام‘ قرار دے چکے ہیں۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے نمائندے نوٹ اوسٹبی نے کہا ہے کہ ’یہ عالمی برادری کے لیے اہم وقت ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو اور اس تباہ کن سیلاب کے بعد ٹھوس اور جامع بحالی کے عزم کا اظہار کرے۔‘
توانائی اور خوراک جیسی درآمدات کی ادائیگی اور غیر ملکی قرضوں کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر پاکستان کے لیے اضافی فنڈنگ بہت ضروری ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ تعمیر نو کی رقم کہاں سے آئے گی، خاص طور پر جب انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہنگامی امداد اکٹھی کرنے کے مرحلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس رقم کا تقریباً نصف ہی فراہم کیا گیا ہے۔
نومبر میں ماحولیاتی تحفظ پر مِصر میں ہونے والے سربراہی اجلاس کوپ 27 میں پاکستان ان کوششوں میں سب سے آگے تھا، جن کی بدولت ’لاس ایند ڈیمیج‘ فنڈ قائم کیا گیا تاکہ ان ممالک کے موسمیاتی تباہی کے نتیجے میں ہونے والا نقصان پورا کیا جا سکے، جنہوں نے عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں میں دولت مند ملکوں کے مقابلے میں کم حصہ ڈالا ہے۔
تاہم یہ ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ 350 ارب ڈالر کی معیشت والا پاکستان مستقبل میں اس فنڈنگ سے فائدہ اٹھانے کا اہل ہو گا یا نہیں؟ منتظمین کا کہنا ہے کہ جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں تقریباً 250 لوگوں کی شرکت متوقع ہے، جن میں اعلیٰ سطح کے سرکاری افسران، نجی عطیہ دہندگان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔
جنیوا میں موجود اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سفیر خلیل ہاشمی نے کہا کہ اسلام آباد اخراجات کا تقریباً نصف ادا کرنے پر تیار ہے لیکن باقی ماندہ رقم کے لیے عطیات دینے والوں سے تعاون کی امید ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم مختلف ذرائع سے بین الاقوامی حمایت کو متحرک کریں گے۔ ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔‘