آپ کو پتہ ہے یہ جو ریچھ آپ کو چڑیا گھروں میں نظر آتے ہیں یا ریچھ نچانے والے جو انہیں ساتھ لیے گلی گلی پھرتے ہیں وہ آپ کے سامنے کن حالوں سے گزر کے پہنچتے ہیں؟
ریچھ کی مادہ عموماً اپنے بچوں کو اپنے بہت قریب رکھتی ہے اور اس کی دیکھ بھال اپنی جان سے بڑھ کر کرتی ہے۔ مادہ ریچھ کی موجودگی میں اس کا بچہ اس سے چھینا نہیں جاسکتا اس لیے بچے کو پکڑنے کے لیے شکاری پہلے اس کی ماں کو مارتے ہیں اور پھر ریچھ کو پکڑا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں جب ایک ویب سائٹ پر یہ تحقیق پڑھی تو ایویں دل پریشان سا ہو گیا۔ بچہ تو بچہ ہوتا ہے، ریچھ کا ہو یا انسان کا، اور ماں بہرحال ماں ہوتی ہے۔ ایک ماں سے بچے کو علیحدہ کرنا اور اسے چڑیا گھر کے شوکیس میں سجا دینا پہلے ہی کتنا غیر انسانی ہے، کجا آپ اس کی دیکھ بھال بھی نہ کر سکیں اور اسے مرنے کے لیے بے یارومددگار چھوڑ دیں؟
آج ٹوئٹر پر جانوروں کے ہمدرد ایک ادارے کی ویڈیو دیکھی جس میں اسلام آباد چڑیا گھر کا ایک ریچھ برے حالوں میں نڈھال آخری سانسیں لیتا دکھایا گیا تھا۔ ثاقب اور میں چڑیا گھر گئے۔ پنجرے میں پڑے اس مظلوم ریچھ کو دیکھا، جو شاید اپنے بالوں کے وزن میں ہی گِھر کر ہوا کو ترس گیا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجرے اور باہر کے احاطے پر چاروں طرف سے دھوپ پڑ رہی تھی۔ شدید گرمی کا عالم تھا۔ ایک جینز اور ایک ٹی شرٹ میں ہم لوگ حبس سے بے حال تھے اور وہ بے چارہ ٹانگیں اونچی کیے پنجرے میں ہانپ رہا تھا۔ کیا اس کے لیے کسی فارن فنڈنگ سے بھی اے سی کا بندوبست نہیں کیا جا سکتا؟ کیا اسے کسی پہاڑی علاقے میں نہیں بھیجا جا سکتا؟ کیا اسے کسی شوقین کو تحفتاً بھی نہیں دیا جا سکتا کہ جو اس کا خیال رکھ سکے؟ کیا اسے کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا جا سکتا؟ کیا اسے وقتی طور پر ہی سہی، یہاں سے بہتر کسی جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا؟
کسی کے بچے اتنے شوقین نہیں کہ وہ ایک ریچھ کو پنجرے میں نہ پا کر اتاولے ہو جائیں۔ اسلام آباد چڑیا گھر والو! ایک جانور اگر پال نہیں سکتے تو اسے رکھتے کیوں ہو؟ پنجرے میں اسے رکھنے کی بجائے اس کی تصویریں لگا دو، ہم اپنے بچوں کو وہی دکھا کر خوش کر دیں گے۔ ایک جاندار کو اس کسمپرسی میں مرنے کے لیے نہ چھوڑو۔
ایک معاشرے کے انسان جب تک اپنے زیر نگیں جانوروں سے سلوک بہتر نہیں کرتے، کم از کم تب تک وہ اشرف المخلوقات کہلانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جانور کا نہیں تو انسانیت کا خیال کر لو۔ اس ریچھ کو ایسے مرتے ہوئے نہ چھوڑو!
بلال خلجی صاحب اسلام آباد چڑیا گھر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ انہیں فون کیا، ان سے اس بارے میں پوچھا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ ویڈیو پرانی ہے۔ ان کے ریکارڈز کے مطابق نہ ریچھ بیمار ہے اور نہ ہی اسے کسی طبی امداد کی ضرورت ہے۔ یہ سب ایسے ہی کسی نے اَپ لوڈ کر دیا ہے۔