الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں مقامی حکومتوں کے قیام کے دوسرے مرحلے میں کراچی ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ اتوار (15 جنوری) کو ہونے کا اعلان کیا ہے۔
صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی، حیدر آباد اور بھمبور ڈویژنز میں الیکشن ہونا تھے، جو گذشتہ دو سال مختلف وجوہات کی بنا پر ملتوی ہوتے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپریل 2022 میں اعلان کیے گئے الیکشن شیڈول کے تحت پولنگ 15 جنوری کو ہی کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
مقامی حکومتوں کے قیام کی غرض سے کراچی ڈویژن کے سات اضلاع (جنوبی، غربی، وسطی، شرقی، ملیر، کیماڑی اور کورنگی) کو 25 ٹاؤنز اور 246 یونین کونسلز میں تقسیم کیا گیا ہے،
اتوار کی پولنگ کے لیے مجموعی طور پر 84 لاکھ پانچ ہزار 475 ووٹرز رجسٹر ہیں، جن کے لیے پانچ ہزار پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔
روشنیوں کے شہر کے ساتوں اضلاع میں تقریبا 9 ہزار امیدوار چیئرمین، وائس چیئرمین اور وارڈ اراکین کی نشستوں کے لیے میدان میں ہیں۔
سال 2020 کے الیکشن شیڈول کے تحت حتمی امیدواروں میں سے 13 اس دنیا میں نہیں رہے، جس کے باعث ان کے کوورنگ امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔
انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی)، مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی)، عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) اور دیگر سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔
گزشتہ دو سالوں کے دوران الیکشن کمیشن نے پولنگ کے لیے بار بار دن مقرر کیا، اور ہر دفعہ سیاسی جماعتوں نے بھرپور تیاریاں بھی کیں، تاہم اس مرتبہ ان کے پاس محض چار دن ہیں، جس کی وجہ سے شہر میں انتخابات سے متعلق گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔
چند روز قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو سندھ بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم، انتخابی فہرستوں میں درستگی اور اضلاع کی حد بندیوں کے خلاف درخواست دیتے ہوئے پولنگ ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن الیکشن کمیشن نے پولنگ 15 جنوری کو منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔
تاخیر اور وجوہات
کراچی میں گذشتہ مقامی حکومتیں دسمبر 2015 میں قائم ہوئی تھیں، جن کی مدت 28 اگست 2020 کو ختم ہوئی اور آئندہ 120 روز میں نئے انتخابات ہونا تھے، تاہم ایسا ہو نہ سکا۔
بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجوہات میں قانون میں ترامیم، سیاسی جماعتوں کی عدالتی جنگیں، حالیہ بارشیں اور سیلاب اور ملک میں امن و امان کی صورت حال تھیں۔
گذشتہ دو سال کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کئی مرتبہ انتخابی انتخابات کروانے کا اعلان کیا تاہم ایسا ہو نہیں سکا۔
آخری مرتبہ ایسا 2022 میں کیا گیا اور اپریل میں جاری ہونے والے الیکشن شیڈول کے مطابق کراچی ڈویژن میں 24 جولائی 2022 کو پولنگ ہونا تھی۔
تاہم ملک میں بارشوں اور سیلاب اور بعدازاں اسلام آباد میں دھرنوں کے باعث کراچی میں بلدیاتی حکومتوں کے لیے پولنگ نہ ہو سکی، اور یوں الیکشن کمیشن نے اس مقصد کے لیے 15 جنوری کی تاریخ مقرر کی۔
بلدیاتی انتخابات کے لیے اپریل 2022 میں جاری ہونے والے الیکشن شیڈول کے تمام مراحل اسی وقت مکمل کر لیے گئے ماسوائے پولنگ کے۔
ایم کیو ایم لندن کا بائیکاٹ
دہائیوں تک کراچی پر راج کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی اور ایم کیو ایم لندن کے سربراہ الطاف حسین نے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو بیان میں الطاف حسین نے کہا کہ وہ ان کی جماعت کے بغیر ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔
انہوں نے عوام سے 15 جنوری کو ہونے والی پولنگ میں حصہ نہ لینے کی اپیل کی۔
منگل کو کراچی کے کورنگی، عزیزآباد، گلشن اقبال اور دیگر علاقوں میں اس سلسلے میں وال چاکنگ بھی کی گئی۔
دوسری جانب انتخابی فہرستوں اور مختلف اضلاع کی حلقہ بندیوں پر سخت اعتراضات کے باجود ایم کیو ایم پاکستان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان محمد کاشف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہمیں جو اعتراض ہیں، ہم ان پر احتجاج کر رہے ہیں، مگر مخالفین کے لیے میدان کو خالی نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم باظابطہ طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔‘
ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنان بڑی تعداد میں کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفاتر کے سامنے حلقہ بندیوں کے خلاف احتجاج بھی کر رہے ہیں, جس میں ڈاکٹر فاروق ستار پی ایس پی کے سربراہ نے بھی شرکت کی۔
اے این پی کے چار امیدوار
کراچی کے پشتونوں کی نمائندہ سیاسی جماعت سمجھی جانے والی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ٹکٹ پر کراچی میں صرف چار امیدوار انتخابات لڑ رہے ہیں۔
پارٹی کے کچھ کارکناں ماضی میں اے این پی حریف رہنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحادی کر چکے ہیں۔
ان میں جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) شامل ہیں۔
اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ بہت سے نششتوں پر اے این پی کے امیدوار اتحادیوں کے پلیٹ فارم سے لڑ رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں سیاسی جماعتیں مرکزی پالیسی کو چھوڑ کر گلی اور محلے کی سطحوں پر اتحاد کرتی ہیں۔
کراچی کا میئر کس جماعت سے؟
کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں بلدیاتی انتخابات کے بعد میئر جماعت اسلامی کا ہو گا جبکہ دوسرے میئر کی کرسی پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انتخابات کی رپورٹنگ پر مہارت رکھنے والے کراچی کے صحافی اور تجزیہ نگار عبدالجبار ناصر سمجھتے ہیں کہ کراچی کی میئرشپ پاکستان پیپلز پارٹی کو جائے گی، جبکہ صحافی، تجزیہ نگار اور سندھی زبان کے ٹی وی چینل دھرتی نیوز کے اینکر پرسن فیاض نائچ جماعت اسلامی کو حقدار دیکھتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے فیاض نائچ نے کہا: ’الطاف حسین کے بائیکاٹ کے باعث ایک تو ووٹر ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہو گا، دوسرا دھڑا بندی کے باعث ایم کیو ایم کا ووٹ بینک تقسیم ہو گا، اور اس کا فائدہ جماعت اسلامی اٹھائے گی۔
’جماعت اسلامی نے کئی سالوں سے حافظ نعیم الرحمن کی میئر کراچی کے طور پر برانڈنگ کی ہے، جبکہ پی پی پی کے پاس میئر کا کوئی امیدوار ہی نہیں ہے۔‘
ان کے خیال میں اگر کسی وجہ سے میئر پی پی پی سے منتخب ہو بھی گیا جماعت کو بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’ایک جماعت کے پاس صوبائی حکومت بھی ہو اور میئرشپ بھی مل جائے تو تنقید اور مخالفت میں اضافہ ہوتا ہے۔‘
عبدالجبار ناصر کے خیال میں ایم کیو ایم کے ووٹ بینک میں تقسیم کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہو گا، جس کی وجہ صوبائی حکومت کی کی گئی حلقہ بندیاں ہیں۔
’دوسرا پیپلز پارٹی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے، جس کا اسے فائدہ ہو گا۔
’اس کے علاوہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پیپلز پارٹی نے کراچی میں کئی ترقیاتی کام بھی کرائے ہیں، اور صوبائی حکومت بھی پی پی پی ہے تو ووٹر کو لگتا ہے کہ اصل کام تو صوبائی حکومت ہی کر سکتی ہے‘
عبدالجبار ناصر کے مطابق عمران خان کے بنانیے کی وجہ سے کچھ ووٹ تو پی ٹی آئی امیدواروں کو ملیں گے، مگر کراچی میئر کا اس جماعت سے آنا ممکن نہیں۔