کمپیوٹر سے باتیں کرنا اور گوگل کے ذریعے کسی بھی سوال کا جواب جاننے کا تجربہ آپ لوگوں نے ضرور کیا ہو گا لیکن مصنوعی ذہانت کی دنیا میں گذشتہ کچھ ہفتوں سے ایک نئے سافٹ ویئر کی دھوم مچ گئی ہے اور اب مائیکروسافٹ نے اسی سافٹ ویئر میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس نئے سافٹ ویئرکا نام ’چیٹ جی پی ٹی‘ (Generative Pretrained Transformer) ہے جو پچھلے سال 30 نومبر کو لانچ کیا گیا۔
فی الحال یہ عام صارفین کے لیے مفت دستیاب ہے اور ماہرین اس نئے سافٹ ویئر کو مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک بہت بڑی ایجاد سمجھ رہے ہیں تاہم بعض اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
یوں تو ہم کسی بھی موضوع کی معلومات حاصل کرنے اور اسے عام قارئین کو سمجھانے کے لیے ماہرین سے بات کرتے ہیں، لیکن آج چیٹ جی پی ٹی نامی سافٹ ویئر پر اس رپورٹ کو لکھنے کے لیے ہم نی اسی سافٹ ویئر سے خود بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ یہ سافٹ ویئر کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
چیٹ جی پی ٹی کیا ہے؟
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سافٹ ویئر کے ساتھ ہم نے انٹرویو کیسے کیا؟
یہ سافٹ ویئر ویب سائٹ کی طرح کام کرتا ہے جس میں آپ کو رجسٹر ہو کر اپنا اکاؤنٹ بنانا پڑتا ہے جس طرح ہم کسی بھی ویب سائٹ پر اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں۔
اکاؤنٹ کی تصدیق کے بعد آپ کے سامنے ایک چیٹ ونڈو کھل جائے گی۔ آپ کسی بھی موضوع کے حوالے سے اس سافٹ ویئر سے پوچھ سکتے ہیں۔
یہ سافٹ ویئر آپ کو اس موضوع پر ایک مفصل آرٹیکل لکھ کر دے دے گا۔ ذیل میں چیٹ جی پی ٹی سے سوال جواب پیش کیے جا رہے ہیں:
پہلے تو یہ بتائیے کہ چیٹ جی پی ٹی کیا ہے؟
چیٹ جی پی ٹی مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک لینگویج ماڈل ہے جو اوپن اے آئی نامی کمپنی نے بنایا ہے۔
اسے بنانے کے لیے پہلے سے اس کی تربیت کی گئی اور اس کو مختلف چیزوں کے بارے میں ٹیکسٹ کے ذریعے پہلے سے معلومات فراہم کی گئیں۔
چیٹ جی پی ٹی کیسے کام کرتا ہے؟
اصل میں اس سافٹ ویئر کے بیک اینڈ پر مصنوعی ذہانت سے لیس ٹرینر کو ٹرین کیا گیا ہے اور آپ جب بھی اس سے کچھ پوچھتے ہیں، تو وہ پہلے سے موجود معلومات کی سیٹ کو پرکھ کر آپ کو کسی بھی سوال کا جواب دیتا ہے۔
تاہم میری معلومات 2021 تک محدود ہیں کیوں کہ میری تربیت اسی دور کے ڈیٹا سے ہوئی۔
آپ کی دی گئی معلومات کتنی مستند ہیں؟
چیٹ جی پی ٹی چونکہ پہلے سے فراہم کردہ ڈیٹا سیٹ پر مبنی ہے جو کسی انسان کی جانب سے فراہم کردہ معلومات سے مطابقت رکھتی ہیں۔
تاہم یہ بات جاننا ضروری ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کی فراہم کردہ معلومات ہمیشہ مستند نہیں ہو سکتیں۔
چیٹ جی پی ٹی کو قابلِ اعتبار اور ناقابلِ اعتبار معلومات میں فرق کرنے کا تجربہ نہیں، لہٰذا چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کی ہمیشہ تصدیق ضروری ہے۔
اس سافٹ ویئر کو کسی بھی ریسرچ کی ابتدا کے لیے استمعمال کیا جا سکتا ہے لیکن صرف اس پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
چیٹ جی پی ٹی کو کسی بھی تحقیق کا خلاصہ کرنے، نامکمل جملوں کو مکمل کرنے، نامکمل پیراگراف کو مکمل کرنے، اور کسی بھی موضوع کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کے بارے میں چیٹ جی پی ٹی کا مضمون
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سافٹ ویئر کی معلومات کی صلاحیت چیک کرنے کے لیے پاکستان کے حوالے سے کچھ سوالات کیے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ کس حد تک درست معلومات دے سکتا ہے۔
سب سے پہلے چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ عمران خان پر کچھ پیراگراف لکھ کر دے سکتے ہیں، تو اس کے جواب میں چیٹ جی پی ٹی نے چند سیکنڈ کے اندر تقریباً 200 الفاظ پر مبنی ایک مضمون لکھ کر دے دیا۔
مضمون میں دی گئی معلومات درست لیکن مکمل نہیں تھیں۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ عمران خان پاکستانی سیاست دان ہیں جو 2018 میں پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔
تاہم مضمون میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد اور ان کو ہٹانے کے حوالے سے تفصیل درج نہیں تھی۔
اس کی وجہ اوپر آ چکی ہے کہ اس کے ڈیٹا میں 2021 کے بعد کی معلومات نہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے چیٹ جی پی ٹی سے پاکستان میں بولی جانے والی زبان پشتو کے بارے میں پوچھا، تو چیٹ جی پی ٹی نے درست معلومات دے کر 200 الفاظ پر مشتمل مضمون لکھ ڈالا جس میں کہا گیا تھا کہ پشتو زبان افغانستان اور پاکستان کے کچھ صوبوں میں بولی جاتی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی نے پشتو کے معروف شعرا جیسے کے رحمان بابا، خوش حال خان خٹک کا مضمون میں ذکر کیا، اور یہ بھی لکھا کہ پوری دنیا میں پشتو زبان کے نیوز چینل اور ریڈیو سروسز موجود ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی کی انسانی تخلیقی کام کے لیے زہر قاتل؟
چیٹ جی پی ٹی کے حوالے سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ بعض لوگ اس کو انسانی تخلیقی کام کو ختم کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے نیویارک کے بڑے سکول نیٹ ورک نے اپنے سکول کے کمپیوٹروں پر چیٹ جی پی ٹی کی استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔
تاہم دوسری جانب دنیا کی مشہور کمپنی مائیکرو سافٹ نے اس سافٹ ویئر میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق مائیکروسافٹ میں اس میں 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے سربراہ اور مختلف تخلیقی مکالے لکھنے والے پروفیسر فیض اللہ جان نے بتایا کہ چیٹ جی پی ٹی کے آنے کے بعد جو تنقید کی جا رہی ہے، یہی تنقید جب گوگل لانچ ہوئی تب بھی ہوتی تھی۔
فیض اللہ جان کے مطابق اس وقت کہا جا رہا تھا کہ اس سے تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوں گی، لیکن بعد میں گوگل دراصل تخلیقی صلاحیتوں میں مدد گار ثابت ہوا اور آج کل کروڑوں افراد اس کو استعمال کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیض اللہ جان نے بتایا: ’جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آتی ہے تو ابتدا میں یہ باتیں ضرور ہوتی ہیں اور یہ بجا بھی ہے لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی ٹیکنالوجی کے لیے قوانین بھی بنائے جانے چاہییں تاکہ اس کا استعمال کار آمد بنایا جا سکے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اب مصنوعی ذہانت پر دنیا بھر میں بحث ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی بجا ہے تاہم کسی بھی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں فیصلہ سازی کی صلاحیت ہمیشہ انسانی دماغ کو ہی دینا چاہیے۔‘
فیض اللہ جان نے بتایا، ’ان مینڈ ڈرون ٹیکنالوجی کو ہی لیجیے، جو مصنوعی ذہانت کی ایک مثال ہے اور اس پر تنقید یہی ہوتی ہے کہ وہ فیصلہ خود کرتا ہے کہ ٹارگٹ کو کہاں ہٹ کرنا ہے اور ہدف کا انتخاب وہ خود کر سکتا ہے۔
’اس کا فیصلہ درست یا غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن دوسری جانب ڈرون ٹیکنالوجی کو بہت مثبت چیزوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘
محمد عمران اٹلی میں بطور سافٹ ویئر انجینیئر کام کرتے ہیں اور ان کی ماسٹر ڈگری کی تحقیقی مقالے کا موضوع مصنوعی ذہانت کی ٹریننگ اور ڈیویلمپنٹ تھا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جی پی ٹی سے کچھ لوگ خوف زدہ ضرور ہیں لیکن اس سافٹ ویئر کی لانچ کے بعد اب ایک ایسا سافٹ ویئر بھی بنایا گیا ہے جس سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مضمون چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے لکھا گیا ہے۔
اس لیے یہ بات درست نہیں کہ چیٹ جی پی ٹی کے بعد کالجوں میں مضمون لکھنے کا رجحان ختم ہو جائے گا۔
’تحقیقی مقالے لکھنے یا اسی قسم کا مواد چوری کرنے کے حوالے سے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم اس کو شناخت کرنا اتنا مشکل نہیں۔‘
عمران نے بتایا کہ چیٹ پی ٹی اس سے پہلے کے مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر سے اس طرح مختلف ہے کہ اس سافٹ ویئر کو ایک بڑے ڈیٹا سیٹ پر ٹرین کیا گیا ہے اور سادہ الفاظ میں اس سافٹ ویئر کے پاس معلومات کا خزانہ بہت زیادہ ہے۔
محمد عمران نے بتایا، ’یہ بالکل اس طرح کام کرتا ہے، جس طرح آپ کلاس میں کسی استاد سے سوالات کرتے ہیں اور وہ آپ کو جواب دیتا ہے جبکہ مصنوعی ذہانت کا سافٹ ویئر صرف آپ کو ایک خاص موضوع کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے۔‘