ابھی چند دن پہلے ہی پتہ چلا کہ پہاڑ کا بلاوا ہو تو ہی آپ اس تک پہنچ سکتے ہیں۔ ثمینہ بیگ صاحبہ جو کہ پاکستانی کوہ پیما ہیں، انڈپینڈنٹ اردو پر اپنے انٹرویو میں یہ بات بتا رہی تھیں۔ میں نے غور کیا تو واقعی میں تین سال سے پہاڑ کو مس کال دے رہا تھا۔ پہاڑ کا فون ہمیشہ بزی رہتا تھا لیکن اس مرتبہ وادی کمراٹ کے پہاڑ نے فون اٹھا لیا، کانفرنس کال میں جاز بانڈا کے پہاڑ کو بھی شامل گفتگو کیا اور ہمیں اجازت نامہ مل گیا۔
نو افراد کا قافلہ بنا اور جون کی ایک یخ گرم رات کو مالا کنڈ ڈویژن کی طرف جہاں بقول پی ٹی وی ہمیشہ گرج چمک کے ساتھ ساتھ بارش کا امکان رہتا ہے رخت سفر باندھا۔
راستے میں رکتے رکاتے، نان خطائیاں اور کیک رس کھاتے، ایک دوسرے کی بستی (بےعزتی) کرتے اور اپنی کراتے سوات موٹروے تک جا پہنچے۔ فون چیک کیا تو پہاڑ کا ایس ایم ایس آیا ہوا تھا اور اس میں صرف ایک مصرع لکھا تھا، انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ۔ کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن زیر تکمیل سرنگ سے نکلتے ہی، کچھ دور چلتے ہی، آ سمجھ گئی۔
جی ٹی روڈ پہنچنے تک گاڑی نے اتنے ہچکولے کھائے کہ اچھا خاصا کارڈیو سیشن ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ یہاں خوراک محل کے نام سے ایک ریسٹورنٹ ہے۔ انڈے پراٹھے چنے اور نہ جانے کن کن چیزوں کے خواب سجائے محل کے صدر دروازے پر پہنچے تو ایک بڑے سے کالے دربان تالے نے ہمارا ’بستقبال‘ کیا (جی ہاں، جب آمد کے موقع پر بستی ہو جائے تو استقبال بستقبال میں بدل جاتا ہے)۔
شاہی باورچیوں کو اپنی آمد کی اطلاع دینا وہ بھی سویرے سویرے مزید بستقبالی کے ڈر سے نا مناسب سمجھا اور اپنا قحط سالوں سا منہ لے کر آگے چل دیے اور تیمرگرہ جا کر بریک ماری۔
ہمارے دوست بٹ صاحب نے ہمت کی اور پٹھان باورچیوں کے درمیان بیٹھ کر آملیٹ بنایا جو ہم سب نے بٹ صاحب کو داد شجاعت دیتے ہوئے بہت مزے سے کھایا۔
ہمارا خیال تھا کہ بارہ گھنٹے کا سفر کافی ہے اور اب پڑاؤ کیا جائے لیکن قدرت کے بعد امیر قافلہ جناب عاصم قریشی صاحب مدظلہ کو یہ منظور نہ تھا چنانچہ مزید تین گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم تھل پہنچ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب وادی کمراٹ جانے کے لیے راستہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہاں سے آگے 4×4 جیپ جا سکتی ہے، بس۔ چنانچہ کفایت شعاری کو مدنظر اور اصراف سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک جیپ کو مع ڈرائیور کے حاصل کیا گیا۔
راستے میں ڈرائیور صاحب فون پر پشتو میں بات کر رہے تھے اور سلمان غیر محسوس طریقے سے ان کی آواز واٹس ایپ پر ریکارڈ کر رہا تھا اور اپنے ایک دوست کو پشاور وہ میسج بھیج رہا تھا۔ کہنے لگا بھائی پتہ تو چلے یہ کیا بات کر رہے ہیں، کمراٹ کے بجائے ہم کہیں اور ہی نہ پہنچ جائیں۔
پشتو ٹرانسلیٹر دوست نے بتایا کہ فکر نہ کرو یہ اپنے دوست سے کوئی کاروباری مسئلہ ڈسکس کر رہے ہیں بس اس میں دو تین مرتبہ بوری کا لفظ آیا ہے۔
آخرکار 17 گھنٹے 45 منٹ مسلسل سفر کے بعد وادی کمراٹ پہنچے۔ یہ جگہ کیمپنگ کرنے کے لیے بہترین ہے۔ برفیلے پانی کے چشمے کے ساتھ لگائیں خیمہ، تا حدِ نگاہ ہوں گے اونچے پہاڑ اور آپ کے پاس ہونے چاہئیں کباب اور تکے بے شمار۔ لیکن چونکہ خیمہ ہم لے کر نہیں آئے تھے اور نہ ہی ہمارے پاس تکے کباب تھے اس لیے ٹین اور لکڑی سے بنے دو کیبن کرائے پر حاصل کر کے کچھ دیر کے لیے آرام کیا۔
کمراٹ ابھی پوری طرح ڈویلپ نہیں ہے۔ ہوٹل نہیں ہیں۔ بس کیمپنگ کے لیے ٹھیک ہے۔ یہاں تک کہ باقاعدہ ٹوائلٹ بھی نہیں ہیں۔ حاجت محسوس ہوئی تو پتہ کرنے پر ایک چوکور دڑبے کی طرف اشارہ پا کر بیت الخلا پہنچا۔ اندرونی منظر دیکھ کر آتی ہوئی حاجت بھی رفع ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ چاروں طرف سے 90 ڈگری کے زاویے پر بنے ہوئے اس بیت کے اندر خلا 45 ڈگری کے زاویے پر بنا تھا جس پر بے یار و مددگار بیٹھ کر آپ کو امور ہائے ضروریہ سرانجام دینے تھے۔ بمشکل دیے۔ اور پھر یخ بستہ پانی کے استعمال کے بعد سن ہو کر واپسی کی راہ لی۔
اگلے روز کمراٹ چھانا۔ نظارے کیے، ٹریکنگ کی اور آبشار دیکھی۔ ویسے میری ناقص رائے کے مطابق کمراٹ میں موجود زیادہ تر نظارے پاکستان میں واقع کسی بھی پہاڑی علاقے کے نظاروں سے 90 فیصد مماثلت رکھتے ہیں۔
دو راتیں کمراٹ میں گزارنے کے بعد صبح ہم نے جاز بانڈا کی طرف چل پڑنا تھا لیکن لٹ جوانوں کے روایتی سست پنے نے گیم ڈال دی اور ہم لیٹ ہوگئے۔
اس کی ایک چھوٹی سی بڑی وجہ ہمارے عزیز دوست سلمان کے خراٹے تھے۔ ہمارے ساتھ والے کیبن میں کچھ ریٹائرڈ انکل لوگوں کا ایک گروپ ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ رات کو لتا کے گانے سن رہے تھے جن کو سلمان بہت انجوائے کر رہا تھا۔
لئیق نے کہا، ’بیٹے ہالے توں لتا نوں انجوائے کر ریا ایں تے جدوں رات نوں اونہاں نے تیرے خراٹے سن کے تینوں لتاں مارنیاں نے تے فیر اسی انجوائے کرنا اے۔‘
دوپہر بارہ بجے کے قریب کمراٹ سے نکلے اور تھل میں رک کر گاڑیوں سے ضروری سامان نکالا اور جاز بانڈا کی طرف چل پڑے۔ سلمان اور محسن نے جیپ کی چھت پر لیٹ کر موت کے کنویں جیسا خطرناک سفر کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کیا۔ شکر ہے راستہ صاف تھا تو ہم ڈیڑھ گھنٹے کے اندر ٹکی ٹاپ تک پہنچ گئے۔ یہاں سے آگے پہاڑ عبور کرکے جاز بانڈا تک پہنچنا تھا۔
وہاں موجود مقامی لوگوں سے پوچھا کہ کتنا فاصلہ ہے تو انہوں نے کہا کہ 20 سے 30 منٹ میں آپ جاز بانڈا پہنچ جائیں گے۔ ایک خچر پر سامان لادا گیا اور اللہ کا نام لے کر پہاڑ کی طرف قدم بڑھائے جو کہ تھوڑی دیر بعد ہی روکنے پڑے کیونکہ پہاڑ 60 درجے کے زاویے پر تھا اور ہمارے 180 درجے پر واقع ٹخنے 181 درجے سے اوپر آنے کو تیار نہ تھے۔
چناچہ شہری نو جوانوں کی اس قطار میں، میں اور سلمان پس فہرست رہ گئے۔ اتنی مشکل ہائیکنگ تھی کہ لگ رہا تھا جیسے پہاڑ چڑھ رہے ہیں۔ اوپر چڑھتے وقت دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی اور ذرا اترائی آتی تو گھٹنوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔
سوا تین گھنٹے میں 13.08 کلومیٹر کا یہ پہاڑ چڑھ کر ہم جاز بانڈا پہنچے۔ منزل پر پہنچ کر پیسے وصول ہوگئے۔ ایسا شاندار نظارہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وسیع و عریض سرسبز لینڈ سکیپ، چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا۔ یہاں الپائن ریسورس سینٹر کے نام سے سے ایک سرائے ٹائپ کی جگہ ہے، یہاں ہم نے قیام کیا۔ یہاں کے پروپرایٹر راجہ صاحب نے ہماری خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اس جگہ بھی ہوٹل نہیں ہیں۔ کیمپنگ کرنے کے لیے البتہ بہترین جگہ ہے۔
جاز بانڈا سے واپس ٹکی ٹاپ تک اترنے کو میں نے اپنے لیے گھڑ سواری کا انتظام کیا۔ گھوڑے کے مالک کا نام صدام حسین تھا اور گھوڑے کا نام کبوتر۔ خیر سے کبوتر صاحب بالکل پہاڑی کے نکڑ پر چلتے ہوئے نیچے اتر رہے تھے۔ شکر ہے نام کا زیادہ اثر نہیں لیا ورنہ مجھے تو ایک جگہ پر ایسا لگا جیسے کبوتر کھائی کے اوپر ابھی پرواز شروع کر دے گا۔ گزارش کی کہ بھائی کبوتر کو حکم دو کہ نکڑ چھوڑ کر راستے کے درمیان میں چلے لیکن صدام حسین نے کبوتر کی سائیڈ لی اور ایک آسان طریقہ بتایا کہ بائی جان آپ پہاڑ کی طرف دیکو کھائی کی طرف مت دیکھو۔
تھل پہنچ کر واپسی کا سفر شروع کیا اور رات کو تقریباً 11 بجے پھر خوراک محل کے پاس سے گزرے۔ خوش قسمتی سے اس وقت محل کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھلے تھے۔ کیونکہ رات کا سفر تھا اور نیند آنے کا بھی خدشہ تھا لہٰذا صرف بارہ تیرہ دم پخت، بیس پچیس سیخ تکہ بوٹی، نان اور بعد میں سبز چائے پر ہی اکتفا کیا کیونکہ زیادہ کھانا نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔
واپسی پر سوات موٹروے کی طرف دیکھے بغیر جی ٹی روڈ کا راستہ لیا اور صبح لاہور پہنچ کر اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔