صوبہ سندھ کے ضلع حیدرآباد کے رہائشی یاسین حمید نے پاکستانی فلموں کی شروع سے آج تک کی اچھی خاصی کلیکشن جمع کر رکھی ہے لیکن اب وہ ہاتھ تنگ ہونے کی وجہ سے اسے فروخت کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
لطیف آباد یونٹ نمبر 12 کے رہائشی یاسین حمید 35 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں لیکن ان کا شوق پاکستانی فلم انڈسٹری سے متعلق ریکارڈ جمع کرنا رہا ہے، اسی وجہ سے انہوں نے کئی اخبارات میں بطور شوبز رائٹر بھی کام کیا۔
اس موضوع پر ان کے پاس دو ہزار سے زائد آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں سمیت پوسٹرز، تصاویر اور کتابیں موجود ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں یاسین حمید نے بتایا کہ 1987 سے انہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری پر لکھنا شروع کیا، تاہم جوں جوں وہ آگے بڑھے اور کمپیوٹر کا دور آیا تو انہوں نے محسوس کیا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کا ریکارڈ کہیں دستیاب نہیں۔
بقول یاسین: ’انڈیا کی فلموں کا ریکارڈ باآسانی مل جاتا تھا، پہلی انڈین فلم ہریش چندر کی ویڈیو تک موجود ہے لیکن پاکستانی فلموں کا ریکارڈ نہیں ہوا کرتا تھا۔ اسی کمی کو دیکھتے ہوئے ہم نے سوچا کہ پاکستانی فلموں کے موجود ریکارڈ کو جمع کیا جائے۔ پھر میں اس طرف آیا تو پاکستانی فلموں کا ہر ریکارڈ جمع کرنا شروع کیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ جس شہر میں کوئی سینیما ٹوٹتا یا ختم ہوتا تھا تو وہ وہاں پر پہنچ کر مہنگے داموں چیزیں خریدا کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جو بھی سینیما ٹوٹتا تو ہم وہاں پر پہنچ جاتے، ان لوگوں کی منتیں کرتے کہ تصاویر سمیت دیگر سامان کباڑ میں نہیں بیچنا، ہم نے ان سے مہنگے داموں میں بڑی بڑی چیزیں خریدیں۔ اس طرح رحیم یار خان، ٹنڈو محمد خان، گھوٹکی، عمر کوٹ سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں جہاں معلوم ہوتا ہے کہ ایسی چیزیں موجود ہیں، وہاں ہم پہنچ جاتے ہیں اور خریدتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’اس وقت ایک شوق تھا، جنون تھا، پیسے تھے اور اچھے حالات تھے، لیکن اب برے حالات ہیں تو میں اس کے لیے انہیں بیچنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔‘
یاسین حمید پاکستان فلم انڈسٹری کی تمام فلموں کی معلومات پر مبنی ایک ڈائریکٹری بنا رہے ہیں، جس میں پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ سے لے کر آج تک کی فلموں کی مکمل معلومات ہوں گی۔
’دیگر ممالک میں ان چیزوں کی بہت قدر ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں ایسی چیزیں جمع کرنے والے کو پاگل کہتے ہیں، دوسری طرف حکومت بھی کوئی توجہ نہیں دیتی۔‘
یاسین حمید مہنگائی اور غربت کی وجہ سے اب اس نایاب کلیکشن کو بیچنے پر سوچ رہے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر اس سلسلے میں حکومت ان سے تعاون کرے تو وہ مزید نایاب کلیکشن جمع کرکے لائبریری کا حصہ بنا سکتے ہیں۔