وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے 17 جنوری (منگل) کی شام صوبائی اسمبلی کی تحلیل سے متعلق سمری بھیجی تھی، جس کے تقریباً 12 گھنٹے بعد بدھ کی صبح گورنر غلام علی ایوان کے خاتمے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
صوبائی اسمبلی کی تحلیل سے متعلق سمری پشاور میں گورنر ہاوس پہنچنے کے بعد سمجھا جا رہا تھا کہ گورنر غلام علی اس پر دستخط کرنے میں لیت و لعل سے کام لیں گے، اور پنجاب اسمبلی کی طرح خیبر پختونخوا کا منتخب ایوان بھی 48 گھنٹے گزرنے کے بعد آئین پاکستان میں دیے گئے خودکار طریقہ کار کے مطابق تحلیل ہو جائے گا۔
امسبلی تحلیل سے متعلق منگل کی رات بھیجی گئی سمری پر علی الصبح دستخط ہو جانے سے لوگوں کو حیرت ہوئی، اور کئی نئی چہ میگوئیاں بھی سننے میں آئیں۔
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کی سابق خاتون رکن اسمبلی نعیمہ کشور نے سمری پر جلد دستخط ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کی وجہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مزید ان کے مقاصد پورا کرنے سے روکنا تھا۔
انہوں نے کہا: ’صرف رواں ہفتے انہوں نے اپنے من پسند لوگوں کو بےتحاشا فنڈز جاری کیے جن میں سے بیشتر منتخب بھی نہیں تھے۔ اگر ہم انہیں 48 گھنٹوں کا وقت دیتے تو اس دوران وہ اپنے مزید کام پورے کر لیتے، جس کو روکنے کے لیے دستخط جلدی کیے گئے۔‘
نعیمہ کشور نے بتایا کہ جے یو آئی نے پہلے سے طے کیا تھا کہ جیسے ہی سمری آئے گی، پی ٹی آئی کو مزید وقت دیے بغیر اس پر دستخط کیے جائیں گے۔
اسمبلی تحلیل ہونے کے حوالے سے نعیمہ کشور نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آمر اسمبلیاں تحلیل کرواتے تھے، اور اب سیاسی شخصیات یہ کام کرنے لگی ہیں۔
‘یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ ایک سیاسی شخص نے اسمبلی تحلیل کی ہے۔ اس سے جمہوریت کا نقصان ہوا ہے۔
’اس پر دہرا افسوس اس بات پر بھی ہے کہ گذشتہ نو سال میں جو قرضے لیے گئے ان سے صوبے میں معاشی بحران عروج پر پہنچ گیا۔ عمران خان بار بار کہتے ہیں ہمارا حال سری لنکا کی طرح نہ ہو جائے، لیکن خود عمران خان نے ملک کو سری لنکا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘
خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل ہونے کی بازگشت کئی ہفتوں سے جاری تھی، جبکہ حذب اختلاف کی جانب سے مختلف بیانات بھی سامنے آ رہے تھے، جن کے باعث تاثر عام تھا کہ پی ٹی آئی شمال مغربی صوبے کی اسمبلی تحلیل کرنے میں سنجیدہ نہیں، اور محض سیاسی نعرے بازی کر رہی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما سردار حسین بابک نے چند ہفتے قبل انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ پی ٹی آئی اسمبلی تحلیل نہیں کرے گی۔
اسمبلی کی تحلیل کے بعد سردار حسین بابک کا کہنا تھا کہ اسمبلی توڑنے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔
’ایوان میں 95 اراکین کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت تھی، تو عمران خان کو آخر مسئلہ کیا تھا؟ ان کا واحد مقصد ملک میں انتشار اور افراتفری کو دوام دینا ہے۔‘
سردار حسین بابک نے کہا کہ دراصل دو صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل کروا کر عمران خان ملک کو دوبارہ عام انتخابات کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ ’لیکن ایسا ہو گا نہیں، اور انتخابات صرف دو صوبوں میں ہی ہوں گے، لہذا ان کی یہ سیاسی چال بھی بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔‘
ان کے خیال میں عمران خان سیاسی طور پر ناکامی کے بعد ملک میں مزید افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کونسلر تک بننے کی حیثیت نہ رکھنے والے لوگ بھی پی ٹی آئی کی وجہ سے سیاست میں آئے، بلکہ وزیر اور اور مشیر بنے، اور پھر انہی کی وجہ سے سیاست بدنام بھی ہوئی، تنقید تذلیل میں بدل گئی اور معاشرے میں عدم برداشت پیدا ہوتا چلا گیا۔
اے این پی ہی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پی ٹی آئی نے صوبائی اسمبلی تحلیل کر کے ایک ڈراما رچایا ہے، تاکہ اپنی ’بدترین‘ کارکردگی کو چھپا سکیں۔
’اچھا ہے انہوں نے اسمبلی تحلیل کر دی ہے، لیکن اب بھی یہ ایک ڈراما ہی رچایا گیا ہے، کیونکہ ان کے پاس تقریباً چھ ماہ ہی رہ گئے تھے، پچھلے ساڑھے نو سالوں میں انہوں نے تو کچھ نہیں کیا، اب کیا کرنا تھا۔ خزانے کا صفایا کر دیا گیا۔ جو قرضے 75 ارب روپے تھے، وہ ان کے دور حکومت میں 950 ارب تک پہنچ گئے۔‘
ایمل ولی خان نے کہا کہ اب جب کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد ان کی جماعت نے پہلا نعرہ بلند کیا۔
’یہ نعرہ احتساب کا ہے۔ اب بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی سب کیس کھلیں گے۔ اور جن اراکین اسمبلی کے پاس پہلے کچھ نہیں تھا اور اب اربوں کے مالک بن گئے ہیں، ان کا بھی احتساب ہو گا۔‘
پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے سابق ایم پی اے صلاح الدین خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ساری جمع پونجی سیاست پر لگا کر اور غیر ملکی شہریت چھوڑ کر آئے تھے، لیکن اب وہ سوچ رہے ہیں کہ ان جیسے لوگوں کا کیا ہو گا؟
’ہمارے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا گیا؟ آخر کیوں پشتونوں کے ساتھ ہی اس طرح ہوتا ہے کہ وفاق پر انہیں قربان کر دیا جاتا ہے۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن
خیبر پختونخوا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن صوبائی اسمبلی اور صوبائی ترجمان اختیار ولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کو ماننے والا شخص کبھی اسمبلی کی معطلی پر خوش نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ اس کے حق میں ہو گا۔
’پچھلے جتنے سالوں سے صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت رہی، تمام فیصلے پی ٹی آئی نے اپنے تئیں کیے، اور اپوزیشن سے کبھی کوئی مشورہ نہیں کیا۔ ’سٹیرنگ کمیٹی ہو یا کوئی اور سب میں اپنے ڈمی نمائندے بٹھا رکھے تھے۔ یہ ایک پارٹی کا شو تھا، اور شائد اسی لیے ہم خوش ہیں کہ ایک ایسی حکومت کا بلآخر خاتمہ ہوا۔‘
اختیار ولی نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی حکومت میں خزانہ بالکل خالی ہو چکا ہے، اور اب اتنے پیسے بھی موجود نہیں کہ رواں ماہ کی تنخواہیں دی جا سکیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی ترجمان روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ بغیر کسی وجہ کے ایک منتخب اسمبلی کو فرد واحد کی خواہش پر تحلیل کیا جانا افسوس ناک ہے۔
’اس کو کوئی بھی اچھا فیصلہ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اب چونکہ ایک آئینی پرووژن کو استعمال کر کے اسمبلی تحلیل کی گئی ہے، تو پیپلز پارٹی بھی آئینی طریقہ کار کو فالو کرتے ہوئے ان ہی خطوط پر فیصلے کرے گی، اور آئینی طریقہ کار کو ہی فالو کرے گی۔‘
جماعت اسلامی
جماعت اسلامی کی سابق رکن خیبر پختونخوا اسمبلی اور ویمن کاکس کی جوائنٹ سیکریٹری حمیرا خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی اسمبلی تحلیل سے خواتین مدمکبغ اسمبلی بھی متاثر ہوئی ہیں۔
’کم اختیار کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین اراکین اسمبلی کے کاموں میں حصہ لے رہی تھیں، اور ان کا بہت بڑا کردار تھا، جس پر بغیر کسی وجہ کے ضرب لگائی گئی۔‘
حمیرا خاتون نے بتایا کہ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ جو ہوا تو وہ اور ان کی جماعت اس عمل کو غلط قرار دے رہی تھی، تاہم پی ٹی آئی نے بھی وہی عمل دہراتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کو توڑ دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان تحریک انصاف
پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزیر تعلیم کامران بنگش کا کہنا تھا کہ اسمبلی تحلیل کروانے کے بعد ان کے جماعت کے جذبے اور حوصلے بلند ہیں، اور وہ اب انتخابات کی تیاری کریں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے حذب اختلاف کو اہم فیصلوں میں شامل نہ کرنے کے الزام کی تردید کی۔
کامران بنگش نے کہا کہ صوبائی اسمبلیاں اس لیے تحلیل نہیں کروائی گئیں کہ عمران خان وفاق میں اپنی حکومت کے خواہش مند ہیں۔
’اس سب کا مقصد عام انتخابات کے ذریعے ایک ایسی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے جس سے مہنگائی کنٹرول ہو رہی ہے، نہ ملک کے حالات سنبھالے جا رہے ہیں۔
‘میڈیا گواہ ہے کہ ہم نے اپوزیشن کو ہمیشہ احترام دیا، باوجود ایک تہائی اکثریت کے ہم ان کو اپنے ساتھ لے کر چلتے رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ در پردہ تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی خواہش رکھتی ہیں، تاکہ ملک میں اسحکام آ سکے اور موجودہ معاشی بحران اور بدانتظامی سے ملک کو نکالا جا سکے۔