انڈیا میں آٹھ سالہ لڑکی جنہیں کروڑوں ڈالر کے ہیروں کے کاروبار کی وارث بننا تھا، انہوں نے دنیاوی آسائشیں ترک کر دیں جس کے بعد وہ سخت مذببی پابندیوں والے نظام میں راہبہ بن گئیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انڈیا کے مغربی شہر سورت کی دیوانشی سانگھوی اس ہفتے تک سانگھوی اینڈ سنز جیولری بزنس کی وارث تھیں۔ جواہرات کی عالمی تجارت میں نمایاں ہونے کی وجہ سے سورت کو ’ڈائمنڈ سٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سانگھوی کے خاندان کا تعلق بھی جین مت سے ہے۔ جین مت چھوٹا لیکن انڈیا کا قدیم مذہب ہے جو عدم تشدد، سبزیاں کھانے اور چھوٹی بڑی ہر قسم کی مخلوقات سے محبت کا درس دیتا ہے۔
مقامی میڈیا میں شیئر کی گئی تصاویر کے مطابق چار روزہ تقریب میں دیوانشی کے نئے کردار کا اعلان کیا گیا۔ تصویر میں ایک موقعے پر ان کی سواری کو ہاتھی کھینچ رہا تھا۔
بدھ کو دیوانشی جین مندر پہنچیں جہاں انہوں نے خوشنما لباس اتار کر سفید رنگ کا سادہ سوتی لباس زیب تن کر لیا۔ تقریب میں شریک ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سانگھوی اپنی کم عمری کے باجود سورت کی جین برادری میں پارسائی کے لیے جانی جاتی ہیں۔
عینی شاہد کے مطابق: ’دیوانشی نے کبھی ٹیلی ویژن یا فلمیں نہیں دیکھیں یا شاپنگ مالز اور سینیما میں نہیں گئیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ لڑکی مندر میں ہونے والی تقاریب میں باقاعدگی سے شریک ہوتی ہیں۔
دیوانشی ’دشکا‘ کی تقریب میں حصہ لینے والے کم عمر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ یہ تقریب دنیا مادی مال و اسباب چھوڑ کر جین مت کے تحت رہبانیت میں داخل ہونے کے لیے منعقد کی جاتی ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سانگھوی کے والدین کا کہنا ہے ان کی بیٹی کو راہبہ بننے کا شوق تھا۔ جین خاندانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ بعض اوقات رشتہ داروں کے سماجی مرتبے کو بلند کرنے کے لیے اپنے بچوں کی راہب بننے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی آئی سی آر اے کے مطابق سانگھوی کے خاندان نے 1981 میں اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی تھی اور اس کی مالیت پانچ ارب انڈین روپے ( چھ کروڑ 10 لاکھ ڈالر) ہے۔
انڈیا میں جین مت کے پیروکاروں کی تعداد 40 لاکھ سے زیادہ ہے۔ سانگھوی کے خاندان کی طرح بہت سے جین خاندانوں کا تعلق امیر کاروباری برادری کے ساتھ ہے۔
جین مت کے پیروکار سبزیاں کھانے پر سختی کے ساتھ یقین رکھتے ہیں اور بعض راہب اور راہبات اپنے منہ کو کپڑے ڈھانپ کر رکھتے ہیں کہ کہیں حادثاتی طور پر کوئی کیڑا مکوڑہ نہ نگل لیں۔
بعض مذہبی رسومات کی وجہ سے جین مت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن میں خاص طور پر انتہائی سخت روزے رکھتے ہوئے موت کو گلے لگانا شامل ہے۔
سال 2016 میں ایک 13 سالہ لڑکی کفارے کے طور پر دو ماہ روزہ رکھنے کے دوران بے ہوش گئیں جس کے بعد ان کی موت واقع ہو گئی۔ روزے کے دوران انہیں دن میں دو بار صرف گرم پانی پینے کی اجازت تھی۔
پولیس نے لڑکی کے والدین پر قتل کا الزام عائد کیا جب کہ ان دعووں کی وجہ سے کہ خاندان نے لڑکی کو روزہ رکھنے پر مجبور کیا، خاندان کو عوامی غصے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔