قریشی نے ایک دن بتایا کہ یار میرے ابا 70 ہزار کی چائے پی کر آئے ہیں اور ساتھ ہنس ہنس کے دوہرا ہو رہا تھا۔
کچھ دوست ایسے پیارے ہوتے ہیں کہ جب وہ ہنسیں تو انہیں دیکھ کے خواہ مخواہ آپ کو ہنسی آتی ہے۔ قریشی انہی میں سے ایک تھا۔ ملنگ آدمی تھا، سبز رنگ اور فوج سے رغبت رکھتا تھا۔ وہ عام طور پر ایسے کپڑے پہنتا تھا جن میں کوئی نہ کوئی ہرا شیڈ ہو۔ دھل دھل کے وہ کپڑے جس رنگ کو پہنچتے اسے ہم نے ’قریشی گرین‘ کا نام دیا ہوا تھا۔
خیر تو بس قریشی آنکھوں سمیت ہر جگہ سے ہنس رہا تھا اور اسے دیکھ کے ہم بھی ہنس رہے تھے۔ جب سنبھلا تھوڑا تو بتانے لگا کہ یار اصل میں ابا نے اینٹوں کا ایک بھٹا قسطوں پر بیچا تھا۔ پہلی قسط 70 ہزار تھی، وہ کیش مل گئی۔ اس کے بعد جب بھی جاتے ہیں اگلا چائے پلا کے ٹرخا دیتا ہے۔ آج خود کہہ رہے تھے کہ ایک کپ ہر مہینے 70 ہزار کا پڑنے لگا ہے۔
سہیل بھائی والے سین میں بھی یہی ہوا۔ حوصلے والے آدمی ہیں، وقوعے کے اگلے دن بھی سارا قصہ سناتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔ جب پوری واردات سنتے ہوئے پتہ چلا کہ فراڈ کرنے والے معززین کو چائے تک ہمارے مخیر بھائی نے پلائی تو بس وہ 70 ہزار کی چائے والا واقعہ یاد کر کے میں ہنس پڑا۔ اس کار فراڈ کا نام ’47 لاکھ نو سو کی روپے چائے‘ تبھی رکھا گیا تھا۔
ہوا یوں کہ 2016 ماڈل کی ہونڈا ویزل تھی سہیل بھائی کے پاس اور بیٹھے بیٹھے انہیں شکایت ہوئی کہ اسے بیچ کر اگلے ماڈلوں میں سے کوئی لینی ہے۔ انہوں نے ایک اشتہار انٹرنیٹ پر دیا اور بے غم ہو گئے۔
دو تین گاہکوں کے فون آئے اور ان میں سے ایک اگلے دن گاڑی دیکھنے پہنچ گیا۔
اس فراڈ میں سہیل بھائی کی ناک بھی قصوروار ہے۔ رام کہانی سناتے ہوئے بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ’حاجی صاحب نے پرفیوم بڑا ظالم لگایا ہوا تھا، مجھے لگا کوئی ٹھیک ٹھاک رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں۔‘
تو حاجی صاحب خیر سے گاڑی دیکھنے پہنچے، شام کا وقت تھا، خوشبو کی لپیٹیں اٹھ رہی تھیں، ماحول بنا ہوا تھا، گاڑی پسند کی اور چلے گئے۔
اگلے دن پھر شام ہی کو آئے۔ ساتھ جنہیں لائے، بتایا کہ ایک بیٹے ہیں اور دوسرے صاحب دفتر میں کولیگ۔ تینوں نے گاڑی یس کروا دی، سودا 47 لاکھ پر ڈن ہوا۔ بولے کل پیسے دے کر ڈیل مکمل کر لیں گے۔
تیسرے دن پھر شام کو آئے۔ اب یہ شام کو آ کیوں رہے تھے؟ اسی لیے کہ سین پورا سیٹ کرنا تھا۔ آج وہ صرف ’ایکسکیوز‘ کرنے آئے تھے۔ سہیل بھائی حیران کہ بھئی آپ لوگ ڈی ایچ اے سے معذرت کرنے آئے ہیں؟ کہنے لگے کہ ’ہمارا ایک مکان بکنا تھا، اس کے پیسے آنے تھے، وہ آج نہیں آئے تو ہم نے سوچا خود آ کے آپ کو بتا دیں۔‘
اب فراڈ کے تانے بانے بُنتے ہوئے نہایت کیژول انداز میں انہوں نے کہا کہ ’بھئی کیش پیسے ہم نہیں دے سکتے، بینک سے ٹیکس اور آڈٹ کے مسائل ہوں گے۔ ہم پے آرڈر دیں گے۔ سہیل بھائی مان گئے۔ ’پے آرڈر تو اصلی ہی ہوتا ہے ہمیشہ۔‘
چوتھے دن باقی دونوں بندے وہی شام پانچ کے آس پاس پہنچ گئے۔ اس بار حاجی صاحب ساتھ نہیں تھے۔ بتایا گیا کہ وہ پے آرڈر بنوا رہے ہیں۔ سہیل بھائی انہیں کوئٹہ ہوٹل لے گئے اور چائے پر بیٹھ کے تینوں حاجی صاحب کا انتظار کرنے لگے۔ یہی وہ تاریخ ساز چائے تھی۔ چھ بج چکے تھے، ایک بندہ نماز پڑھنے چلا گیا، ایک حاجی صاحب کو لینے اور یہ ہوٹل پر بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے۔
اس فراڈ میں سہیل بھائی کی ناک بھی قصوروار ہے۔ رام کہانی سناتے ہوئے بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ’حاجی صاحب نے پرفیوم بڑا ظالم لگایا ہوا تھا، مجھے لگا کوئی ٹھیک ٹھاک رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں۔‘
حاجی صاحب پہنچ گئے۔ چائے پی کے چاروں اٹھے اور سٹامپ فروش کی دکان پر ٹرانسفر ڈیڈ بننے کا وقت آیا۔ یاد رہے کہ وہی شام ہو چکی تھی۔ بینک ٹائم ختم ہو چکا تھا۔ سہیل بھائی کھٹکے تھوڑا سا، کہنے لگے کہ میں گاڑی دیتا ہوں کاغذ نہیں دوں گا، پیسے پورے مل جائیں گے، تب رجسٹریشن آپ کے حوالے کروں گا۔
وہ پارٹی بھی اڑ گئی کہ کاغذ ملیں گے تو سودا ہو گا۔ ایک صاحب ایویں ادھر کھڑے تھے۔ کالا کوٹ دیکھ کے کنفرم ہوا کہ وہ وکیل تھے۔ ان لوگوں نے ان سے مشورہ کیا تو وہ بھی کہنے لگے کہ جب ڈیل ہو چکی ہے، پے آرڈر آپ کو مل چکا ہے تو بس اس کا مطلب ہے کہ سودا مکمل، ’سر جی کاغذ دے دیں انہیں، پے آرڈر آپ کے پاس ہے، اس کا مطلب تو کیش ہی ہوتا ہے۔‘
تین چار دن سے جو ماحول بنا ہوا تھا اعتبار کا، وکیل صاحب والی بات اس میں آخری کیل ٹھونک گئی۔ سہیل بھائی نے گاڑی کاغذات سمیت ان کے حوالے کر دی۔
چائے کے چار سو روپے، سٹامپ پیپر کی پانچ سو فیس یہ سب پیسے بھی خود سہیل بھائی نے ادا کیے اور پے آرڈر لے کے واپس آ گئے۔
صبح اٹھے تو ساڑھے نو بجے بینک پہنچے، اب پے آرڈر عملے کو پیش کیا۔ وہ بندہ پے آرڈر دیکھ کے ان کی شکل دیکھنے لگ گیا۔ یہ سمجھے پیسے زیادہ ہیں شاید اس لیے ایسی غمگین نما آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نے انہیں کہا کہ بیٹھ جائیں۔ بٹھا کر بولا کہ صاحب یہ جعلی ہے۔
سہیل بھائی ایک دم سن، بولے: ’یہ کیسے جعلی ہو سکتا ہے، برانچ کی مہریں ہیں، پورا اصلی ڈرافٹ جیسا ناک نقشہ ہے، مسئلہ کیا ہے اور کہاں ہے۔‘ اب اس نے ایک دو مزید برانچوں میں فون ملائے، ساری جگہ سے تسلی کر کے انہیں بتایا کہ یہ ڈرافٹ دو سال پرانے ڈیزائن کا ہے اور وہ اب متروک ہو چکا ہے۔
قصہ یہ کھلا کہ اس نمبر کا پے آرڈر دو برس قبل 38 ہزار مالیتی ایشو ہوا تھا۔ اِس جعلی پے آرڈر کا بار کوڈ اور پرنٹنگ سمیت ہر چیز بالکل ویسی تھی، یہ تیار کرنے والوں کی مہارت کا شاہکار تھا۔
سہیل بھائی نے حاجی صاحب کو فون کیا، انہوں نے کہا: ’ایسا نہیں ہو سکتا۔ آپ اسے جمع تو کروائیں بینک جا کر۔‘ یہ بولے کروا دیا ہے تبھی تو پوچھ رہا ہوں۔ بس وہ آخری سوال تھا سہیل بھائی کا، اس کے بعد جو کال کاٹی ہے حاجی صاحب نے تو آج تک سہیل بھائی کیا، پولیس والوں نے بھی ان کی آواز دوبارہ نہیں سنی۔
اب سہیل بھائی غریب گوڈے گوڈے تھانے کچہریوں میں پھنس چکے تھے۔
عبرت تو مکمل ہو چکی تھی سنتے ہوئے، پوچھا کہ نصیحت یا سبق کوئی دینا چاہتے ہوں تو کہیے۔ بولے: ’ایک بات یاد رکھیں۔ گاڑی کی ڈیل کے بعد بینک آپ پارٹی کے ساتھ خود جائیں، کیش ہے یا پے آرڈر، وہیں ان کے ساتھ لین دین کریں بینک اوقات میں بینک کے اندر، جب اکاؤنٹ میں پیسے آ جائیں تو سمجھیں کہ آپ کی ڈیل مکمل ہو گئی ہے۔‘
پہلے نمبر پر حاجی صاحب کا پرفیوم، دوسرے نمبر پر خواہ مخواہ کے وکیل صاحب اور تیسرے نمبر پر شام کا سودا ۔۔۔ فقیر کے خیال میں یہ تین لوچے بھی اس فراڈ کے ذمہ دار تھے۔ وکیل صاحب ویسے اصل میں وکیل تھے اور اتفاق سے ہی ادھر پہنچے تھے، یہ بعد کی پولیس تفتیش میں پتہ چلا تھا۔