گذشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی بہت سی کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا اور نتیجتاً اس وقت نئی گاڑی خریدنے والے صارفین کے پاس بہت زیادہ چوائس موجود ہے کہ اپنی ضروریات سے بالکل ہم آہنگ کون سی گاڑی خریدی جائے۔
جہاں چوائس بڑھ گئی وہیں پیسے تیل ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ اب ایک صارف کو پہلے سے گئی گنا زیادہ چوکنا ہو کر گاڑی خریدنا پڑتی ہے۔ نئی گاڑی خریدتے ہوئے چند اہم باتیں ایسی ہیں کہ جن پر دھیان دیا جائے تو آپ کو اپنے پیسوں کا بہترین نعم البدل مل سکتا ہے۔
1 - کمپنی کی ساکھ
گاڑی خریدتے ہوئے سب سے پہلے تو آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ جس کمپنی نے اسے بنایا ہے، دنیا بھر میں اس ادارے کی ساکھ کیسی ہے۔ کیا اس کی بنائی گاڑیوں کے انجن قابل اعتبار تصور کیے جاتے ہیں؟ کیا اس ادارے کی پاکستان میں کوئی پہلے سے کوئی پہچان موجود ہے؟ اگر صارفین کو گاڑی بنانے والی اس کمپنی سے کوئی شکایات ہیں تو وہ کس نوعیت کی ہیں؟
2 - آفٹر سیل سروس نیٹ ورک
جس کمپنی کی گاڑی آپ خرید رہے ہیں اس کا آفٹر سیل سروس نیٹ ورک ہونا اس لیے ضروری ہے کہ گاڑی میں کسی بھی قسم کے مسائل کی صورت میں آپ باسہولت اسے اپنے شہر سے ٹھیک کروا سکیں۔
نئی آنے والی کمپنیوں کے تھری ایس سینٹر(ورکشاپ) اکثر لاہور، کراچی یا اسلام آباد میں تو ہوتے ہیں لیکن پاکستان کے دیگر شہروں میں اگر گاڑی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو خریدار بہرحال پریشانی میں رہتا ہے کیونکہ نئی گاڑی جو وارنٹی میں ہو، اسے بہرحال آپ کسی بھی عام مکینک کے پاس لے جا کر نہیں کھلوا سکتے۔
3 - سپیئر پارٹس کی قیمت
کوئی بھی بندہ ظاہری بات ہے یہ سوچ کر نئی گاڑی نہیں خریدتا کہ مہینے بعد خدانخواستہ اس کا ایکسیڈنٹ کر دینا ہے۔ حادثے بہرحال دنیا میں ہوتے ہیں اور نئی گاڑیوں کے بھی ہوتے ہیں۔
کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی پسندیدہ گاڑی اور اس کیٹیگری کی دوسری گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کی پرائس اور دستیابی کا تھوڑا سا موازنہ ضرور کر لیں۔
4 - رنگ
پاکستان میں سفید، کالے یا سلور رنگ کی گاڑی فروخت کرنا آسان ہوتا ہے۔ اگر آپ کی گاڑی سپیشل ایڈیشن ہے اور آپ نے اپنے شوق سے لال، نیلی، بھوری یا گولڈن لی ہے تو ری سیل کے وقت یہ مسئلہ بہرحال آپ کی گاڑی دیر سے فروخت ہونے یا کچھ پیسے توڑنے کا باعث بنے گا۔
5 - لگژری فیچر
گاڑی میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کو اضافی پیسے ادا کر کے ملتی ہیں۔ ساٹھ لاکھ کی گاڑی چار پانچ فیچر ڈال کے پینسٹھ لاکھ تک کی آرام سے ہو جاتی ہے لیکن خریدنے سے پہلے یہ سوچنا آپ کے لیے ضروری ہے کہ اگر گاڑی کی چھت کھلتی ہے (سن روف) تو پاکستان کے شدید موسموں میں آپ نے اسے کتنا کوئی کھول لینا ہے؟ یا جو بھی سہولت اضافی پیسوں میں مل رہی ہے، یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیجیے کہ اس کے بغیر آپ کس حد تک کام چلا سکتے ہیں؟
6 - ری سیل ویلیو
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ نئی گاڑی خریدنے والا بندہ اسے بیچنے کے لیے نہیں لیتا۔ وہی لوگ جب گاڑی بیچتے ہیں تو بہرحال آواز آتی ہے کہ ’یار بڑے پیسے توڑ گئی گاڑی۔‘
یہ وقت کسی پر بھی آ سکتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے گاڑی خریدنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس کی ری سیل ویلیو کیسی ہے اور کل اگر یہ بیچنی پڑ جائے تو منافع دے گی یا خریدار ٹارچ سے ڈھونڈنے پڑیں گے۔
7 - نئے ماڈل کے پہلے گاہک نہ بنیں
کسی بھی گاڑی کا نیا ماڈل جس سال آتا ہے وہ سمجھ لیجیے مارکیٹ میں تجربے کا سال ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ اس ماڈل میں ضروریات کے حساب سے تکنیکی تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور دو تین سال تجربے کے بعد کمپنی اسے قابل اعتبار بنا دیتی ہے۔ فرض کیجے ایک گاڑی 2019 میں نئی شیپ آئی لیکن اس کا سٹیئرنگ اچانک جام ہو جاتا تھا، تو یہ خرابی 2020 تک ممکن ہے رہ جائے لیکن 2021 میں بہرحال کمپنی اسے پرفیکٹ کر کے ہی مارکیٹ میں لائے گی۔ گاڑی خریدتے وقت یہ مثال ذہن میں رکھیے۔
8 - انوائس والی قیمت پہ گاڑی ملنا اب مشکل
آٹو ون شوروم سے امتیاز علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نئی گاڑی انوائس والی قیمت پر ملنا اب ناممکن ہے۔ ’ڈیلیوری ٹائم تک گاڑی کی قیمت کچھ سے کچھ ہو چکی ہوتی ہے اور یہ بات کمپنیاں آپ کو اب پہلے سے بتا بھی رہی ہیں۔‘ یعنی اگر بک کروانے کے وقت گاڑی کی پرائس کمپنی کی طرف سے 60 لاکھ تھی اور جب ڈیلیور ہوئی تب 65 لاکھ، تو آپ کو 65 لاکھ ہی بھرنا ہو گا۔
9 - اون کے بغیر ناممکن
اون منی کے بغیر گاڑی خریدنا اب ممکن نہیں رہا۔ ’چالیس لاکھ کی گاڑی اب چوالیس لاکھ میں بِکتی ہے اگر آپ اون بھرنے کی بات کریں۔‘ امتیاز علی کا کہنا تھا کہ ’نئی گاڑی کا بجٹ بنائیں تو اون منی کا حساب کتاب ذہن میں رکھیں، اس کے بغیر گاڑی لینا اب ممکن نہیں۔‘
10 - ڈیلیوری ٹائم حتمی نہیں
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سب گاڑیاں بنانے والے اب ڈیلیوری کا پروژنل ٹائم دے رہے ہیں کہ فلاں مہینے تک دے دیں گے لیکن وہ ٹائم بدل بھی سکتا ہے۔ اپریل 2022 کی ڈیلیوری ہو سکتا ہے آپ کو آج ملے مگر اب یہ ایک نارمل بات ہے۔‘
11 - گاڑی کمپنی سے لیں کیونکہ ٹیکس کا مسئلہ ہے
’اگر آپ نے کمپنی سے گاڑی لی ہے تو پھر آپ کو مسئلہ نہیں ہو گا لیکن اگر آپ کی گاڑی کمپنی سے کسی دوسرے بندے کے نام پر آئی ہے اور آپ نے مارکیٹ سے لی تو پھر آپ کے اوپر ڈبل ٹیکس ہے۔ اس بندے کا ٹیکس بھی آپ بھریں گے اور اپنے نام منتقلی کا ٹیکس بھی بھریں گے۔‘
یہ اقدام اون منی سے بچنے کے لیے گذشتہ حکومت نے اٹھایا تھا لیکن نئی گاڑی خریدنے والوں کے لیے اب ڈبل ٹیکس کا علم ہونا اور چاہیں تو اس سے بچ سکنا ضروری ہے۔
12 - ’کمپنی سے بھی گاڑی بلیک میں ملے گی‘
’فوراً گاڑی لینی ہو تو اون کی تھوڑی سی رقم بچانے کے لیے کسی پرائیویٹ شوروم سے مت خریدیں۔ مثلاً 70 لاکھ کی ایک گاڑی کمپنی آپ کو 78 لاکھ میں اون سمیت آفر کر رہی ہے اور باہر مارکیٹ میں کوئی 76 لاکھ کی اپنی بُک کرائی ہوئی دے رہا ہے تو آپ متعلقہ کمپنی سے ہی گاڑی خریدیں۔ اون سے، بلیک سے آپ بچ نہیں سکتے۔ کمپنی سے لینے میں فائدہ یہ ہے کہ آپ کو وارنٹی سمیت ہر چیز کی تسلی ہو گی۔‘
13 - گاڑی ڈیلیور ہونے کے وقت اسے چیک کروائیں
گاڑی فیکٹری سے لے کر کمپنی کے متعلقہ شوروم تک ڈیلیور ہونے کے درمیان کئی مراحل ایسے آتے ہیں کہ اس پر خراش لگنے، باقاعدہ ڈینٹ یا ایکسیڈنٹ کا امکان موجود ہوتا ہے۔ امتیاز علی کے مطابق: ’کمپنی والے گاڑی کو دوبارہ پینٹ کر کے یا نیا بنا کر بھیج دیتے ہیں اور بیچتے وقت علم ہوتا ہے کہ گاڑی میں یہ مسئلہ موجود تھا۔ بہتر ہے گاڑی لینے سے پہلے اس کو مکمل طور پر چیک کروا لیا جائے۔‘
14 - نئی گاڑی لیتے ہی ٹائر مت بدلوائیں، تبدیلیاں نہ کرائیں
اگر کمپنی شوروم سے گاڑی باہر نکالتے ہی اس کے ٹائر آپ بدلوا لیتے ہیں تو کمپنی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ گاڑی کے سسپنشن (شاکس) کی وارنٹی اب ختم ہو چکی ہے۔
آپ نے کوئی ایکسٹرا چیز جیسے کیمرہ لگوایا یا لائٹیں بدلوائیں اور وائرنگ چھیڑ لی تو کمپنی کسی بھی دوسرے نقصان کی صورت میں آپ کو یہ کہہ سکتی ہے کہ جینوئن وائرنگ تبدیل ہونے کی وجہ سے اب آپ کو وارنٹی کلیم نہیں مل سکتا۔
ماہرین کے مطابق اس مسئلے سے بچنے کے لیے کم از کم پہلے تین ہزار کلومیٹر تک گاڑی میں کوئی بھی چیز تبدیل نہ کریں۔ جب تسلی ہو جائے کہ سب کچھ صحیح کام کر رہا ہے تب اس بارے میں سوچنا شروع کریں۔