’کشمیر میں مزید دس ہزار فوج کی تعیناتی۔ ایک سرکاری سرکیولر‘
’تین ماہ کے لیے رسد کا انتظام اور گاڑیوں کو محفوظ مقامات پر رکھنے کی ہدایات۔ دوسرا سرکاری سرکیولر‘
’پاکستانی فوج کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے ممکنہ حملے کے بارے میں سراغ رساں ادارے کو ملی اطلاع۔ تیسرا سرکیولر‘
’پندرہ اگست کو پنچائت گھروں پر بھارتی ترنگا لہرانے کے لیے مزید فوجی کمک‘ ایک اور آڈر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘
سرکاری احکامات سے متعلق خط و کتابت کا یہ سلسلہ کئی روز سے اخبارات اور سوشل میڈیا کے اہم موضوعات بنے ہیں جن کے نتیجے میں وادی کشمیر کی پوری آبادی خوف و ہراس میں مبتلا ہے اور یہ قیاس آرائیاں گشت کرنے لگیں ہیں کہ حکومت بھارت جموں و کشمیر میں دفعہ 370 یا دفعہ 35 A کو ہٹا کر ریاست کی آئین ہند میں دی جانے والی خصوصی پوزیشن کو ہذف کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس پر ممکنہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حفاظتی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
ریاست کے گورنر نے ان سرکاری احکامات پر کان نہ دھرنے کی اپیل کی اور کہا کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے حالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران اپنے منشور میں جموں و کشمیر کو خصوصی پوزیشن سے متعلق آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا عہد کیا ہے مگر جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کشمیر میں ثالثی کی پیشکش کا انکشاف کیا ہے تب سے بھارت کے سیاسی حلقوں میں ایک عجیب سی کھلبلی مچی ہوئی ہے اور کشمیر کےاندر جیسے ایک نفسیاتی جنگ کا کھیل شروع ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ کے بیان سے جہاں ایک طرف بی جے پی کے اپنے ہندو ووٹروں میں سبکی پیدا ہوئی ہے وہیں دوسری طرف کشمیر میں جاری شورش کو دبانے کے لیے نئی نئی حکمت عملیوں کو اپنایا جا رہا ہے اور ٹرمپ کے انکشاف کی اہمیت کو زائل کرنے کے لیے کشمیر میں سرکیولر جاری کرنا بھی اسی حکمت عملی کی ایک کڑی تصور کی جا رہی ہے۔ کیونکہ کچھ ہو یا نہ ہو، کچھ وقت کے لیے کشمیری عوام کو ٹرمپ کے بیان سے ایک موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی مگر حکام نے نئے نئے حربے استعمال کرکے اندرونی خلفشار کی ایک نئی فضا کو جنم دیا ہے اور یہ حکمت عملی ٹرمپ سے توجہ ہٹانے میں کارگر بھی ثابت ہو رہی ہے۔
میڈیا کے اکثر اداروں نے ٹرمپ کے بیان کو نظرانداز کیا اور اس کو محض ایک عام سی خبر تک محدود رکھا حالانکہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم صرف اسی خبر پر تبصرے اور تجزیوں کی زینت بنے رہے جن میں لائن آف کنٹرول کے آرپار لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد بھی دے رہے تھے۔
ظاہر ہے کہ حکومت کی پہلی ساری توجہ میڈیا پر مرکوز رہی اور ساتھ ہی کشمیر میں جب سوشل میڈیا پر سرکیولر کا سلسلہ جاری ہوا تو عوام میں ٹرمپ کے بجائے سرکیولر سے پیدا شدہ صورتحال پر تبادلہ خیال شروع ہوا۔ لوگوں نے گھبراہٹ میں اشیا خوردونوش کی خریدو فروخت شروع کی کیونکہ ایک سرکیولر سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ کشمیر میں بدترین حالات پیدا ہونے کا امکان ہے۔
جموں و کشمیر میں اس وقت جس صورتحال کا سامنا ہے ایسی نظیر شاید دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ جب سن نوے میں عسکری تحریک کا آغاز ہوا تھا اور تقریباً لاکھوں لوگ سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں میں شریک ہورہے تھے۔ تب بھی عوام میں اتنی گھبراہٹ یا بے چینی نہیں تھی جتنی آج جان بوجھ کر پیدا کی جارہی ہے۔
مودی کی سخت گیر پالیسیوں کے نتیجے میں اگرچہ لوگ پہلے ہی کافی سہمے اور گھبرائے ہوئے ہیں اور ہر پل انتظامیہ سے لے کر سکیورٹی اداروں میں کچھ نہ کچھ بدلاو محسوس کر رہے ہے البتہ بقول ایک دانشور ’ٹرمپ کے بیان کے بعد عوام کو سختی سے کچلنے کی پالیسیوں میں تیزی آنے لگی ہے۔ وہ چاہیے مینسٹریم سیاست دانوں کو رشوت لینے، بھارتی پالیسیوں پر تنقید کرنے، تحریک کے لیے پیسے کی لین دین یا ایل او سی تجارت کے دوران منشیات کی سمگلنگ کروانے وغیرہ کیسوں میں الجھانا ہو یا عوام کے ذہنوں پر دباؤ ڈالنا ہو حتیٰ کہ یہ بھی سنا گیا ہے بعض بد دیانت سیاست دانوں نے ان کیسوں سے بچنے کے لیے بی جے پی کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔‘
ادھر حریت کے بیشتر رہنما خاموش ہیں اور وادی میں بڑھتی ہوئی بے چینی پر تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
نعیمہ احمد مہجور کے دیگر کالم پڑھیے
ٹرمپ کے ثالثی کے بیان پر مودی خاموش کیوں؟
بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں
بی جے پی کی سخت گیر پالیسی کے پیچھے ایک اور اہم مقصد کار فرما ہے۔ وہ جموں و کشمیر میں پہلی بار ہندو انتہا پسندوں کی حکومت قائم کرنے کی خواہشمند ہے جس کی ابتدا وہ انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کے اطلاق سے کرانا چاہتی ہے۔ نئی حد بندی سے وہ جموں اور لداخ میں کشمیر کے برابر انتخابی حلقے قائم کرکے ریاستی انتخابات جیت کر جموں سے وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہے تاکہ ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو تبدیل کرکے اسے باقی ریاستوں کی طرح بھارت میں ضم کیا جاسکے۔
اس سلسلے میں ذرائع کے مطابق کشمیر میں بعض ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جہاں ان کشمیری پنڈتوں کی آبادی ہے جو سن نوے میں عسکری تحریک کے نتیجے میں کشمیر چھوڑ کر چلے گئے جب بعض پنڈتوں کو بندوق برداروں نے ہلاک کیا تھا اور وہ خوف و ہراس میں سب چھوڑ چھاڑ کر بھارت کی مختلف ریاستوں میں رہاش پذیر ہوئے۔
پنڈتوں کو واپس کشمیر بلایا جا رہا ہے بلکہ کئی خاندان واپس کشمیر آچکے ہیں ۔ بی جے پی ان ہزاروں پنڈتوں اور چند مقامی مسلمانوں کی بدولت بعض نشستیں حاصل کرکے جموں و کشمیر میں مہاراجہ دور کے بعد سے پہلی بار ہندو حکومت قائم کرنے میں بڑی کوشاں نظر آرہی ہے۔
گذشتہ ریاستی انتخابات میں بھی بی جے پی نے درجنوں امیدوار میدان میں اتارے تھے، نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے عوام کو خبردار کیا تھا کہ وہ بی جے پی کو ووٹ نہ دیں مگر جب پی ڈی پی کو کشمیر میں 28 نشستیں اور بی جے پی کو جموں میں 25 نشستیں حاصل ہوئیں تو دونوں نے اتحاد بنا کر مخلوط حکومت بنائی جو مسلمان ووٹروں کو شدید طور پر ناگوار گزرا اور جس کے فوراً بعد ہی پی ڈی پی کی ساخت بری طرح متاثر ہوئی اور اس وقت پارٹی میں محض چند لوگ ہی بچیں ہیں۔
اب جبکہ کئی ہندو جماعتیں کشمیر کی سیاست میں کود پڑیں ہیں اور کشمیر کا مسلم کردار ختم کرنے کے درپے ہیں اس کے لیے نہ صرف فوج کی بھاری تعداد کشمیری ذہنوں پر مسلط کی جا چکی ہے بلکہ اب میڈیا میں سرکاری خط و کتابت کو جاں بوجھ کر شائع کرکے نفسیاتی جنگ بھی کھیلی جارہی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اگر نفسیاتی جنگ کا یہ داؤ بھی ناکام ہو گیا تو کشمیریوں کو آزادی کے اپنے حق سے دستبردار کرنے کے لیے کون سا نیا حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے شاید دلی کے ایوانوں میں اب اس کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔