انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کے فرق کو کم کرنے کے لیے سرکاری کنٹرول یا کیپ ہٹانے کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ یا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنا وفد پاکستان بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔
آئی ایم ایف کی پاکستان کی نمائندہ ایسٹر پیریز روئیز نے ایک بیان میں کہا کہ نویں جائزے کے لیے آئی ایم ایف کا وفد 31 جنوری کو پاکستان آئے گا اور وفد نو فروری تک پاکستان میں رہے گا۔
وفد دورہٗ پاکستان میں ملک کی مالی پوزیشن بہتر بنانے، سیلاب متاثرین کی بحالی کے اقدامات سے متعلق بات چیت، توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کو کم کرنے، کرنسی مارکیٹ میں ایکسچینج ریٹ کے ذریعے کرنسی کی کمی دور کرنے پر غور کرے گا۔
جمعے کے روز کاروبار کے آغاز کے ساتھ ہی ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 262 روپے کو چھو گیا۔ گذشتہ دو دنوں میں انٹربینک میں ڈالر 31 روپے سے زیادہ مہنگا ہوچکا ہے۔
آئی ایم ایف وفد سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے تصدیق کی ہے کہ آئی ایم ایف سے جلد ہی معاہدہ طے ہوگا۔ جس کے بعد ملک مشکل حالات سے نکل آئے گا۔
اسلام آباد مارگلہ ریلوے سٹیشن پر گرین لائن ایکسپریس ٹرین سروس کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کہا: ’پاکستان اس نہج پر کھڑا ہے جہاں ایک ایک پائی بچانے کی ضرورت ہے، جلد مشکل حالات سے باہر نکلیں گے۔‘
ماضی میں معاشی بحران میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ممالک نے ہمیشہ مالی مدد کی، مگر اب دوست ممالک بھی مدد کرنے سے گریز کررہے ہیں۔
ایسے وقت میں جب پاکستان معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے دوست ممالک سے فوری امداد کی توقع کر رہا تھا، تو حال ہی میں سعودی عرب نے مالی معاونت کو معاشی اصلاحات سے مشروط کردیا ہے۔
سعودی عرب نے اعلان کیا کہ اتحادی ممالک کو دی جانے والی مالی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جا رہا ہے، یعنی بغیر کسی شرط کے براہِ راست گرانٹس اور ڈپازٹس کی پالیسی کو بدل کر اب دوست ممالک میں معاشی اصلاحات پر زور دیا جائے گا۔ ان ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اپنے حالیہ بیان میں اس بات کی تصدیق کی: ’اب آئی ایم ایف والے کہتے ہیں کہ پہلے اصلاحات کی شرائط پوری کریں اور بعد میں ہم آپ کی مدد کریں گے۔ دوست ممالک بھی کہتے ہیں کہ آپ پہلے آئی ایم ایف سے معاہدہ کریں تو اس کے بعد ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی ایم ایف وفد کی پاکستان آمد اور متوقع معاہدے اور قرضے کی قسط جاری ہونے کے بعد امید کی جاررہی ہے کہ دوست ممالک سمیت مخلتف ممالک پاکستان کو قرضہ دینے کے رضامند ہوجائیں گے۔
ماہر معاشیات اور پاکستان میں پائیدار ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کے مطابق اب دنیا نے دیگر ممالک کو دیے جانے والے قرضوں کو کو اس ملک کے اداروں کی اصلاحات اور معاشی اصلاحات سے مشروط کردیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے بتایا: ’اگر کوئی ملک اپنے معاشی نقصانات کا جائزہ لے کر ان اسباب کا سدباب نہیں کرتا اور صرف قرضوں پر انحصار کرتا ہے، تو اب دنیا بھر میں قرضے دینے والے ممالک اس ملک کو قرضہ نہیں دیتے۔
’وہ اس لیے نہیں دیتے کہ یہ ملک تو اب صرف اور صرف قرضوں پر گزارا کررہا ہے اور ان کے پاس بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایسے ہے کہ کوئی بندہ بے روزگار ہو اور کوئی فرد اسے ہر مہینے 20 ہزار روپے بھیج دے تو وہ بندہ کام کیوں کرے گا؟‘
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا: ’آئی ایم ایف نیا قرضہ اس وقت تک نہیں دیتا، جب تک وہ ملک آئی ایم ایف کے اداروں کی اصلاحات اور معاشی اصلاحات کی شرائط پرعمل درآمد نہیں کرتا۔ جیسے کہ ٹیکس نیٹ ورک بڑھانے، سستی بجلی بیچنے سے گریز اور دیگر اقدامات نہیں کرتا۔‘
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کے مطابق جب آئی ایم ایف کسی ملک کو قرضہ دیتا ہے تو دنیا بھر کے ممالک کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب یہ ملک بھی خود کوئی ہاتھ پاؤں مارے گا، معاشی اصلاحات لائے گا اور قرضہ واپس بھی کر پائے گا۔
ان کے مطابق: ’تو آئی ایم ایف کی جانب سے نیا قرضہ ملنے کا مطلب ہے پاکستان معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ تو اس کے بعد دوست ممالک سمیت مختلف ممالک پاکستان کو قرضہ دینے کو تیار ہوجائیں گے۔ ‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے مالیاتی امور کے صحافی اور تجزیہ نگار تنویر ملک کے مطابق مسلسل چلنے والے معاشی بحران کے باعث عالمی طور پر پاکستان کی ساکھ کو نقصآن ہوا ہے کہ پاکستان صرف قرضوں پر چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیوالیہ ہونے کی افواہوں کے باعث مختلف ممالک سوچتے ہیں کہ اگر انہوں نے قرضہ دیا تو وہ واپس نہیں ملے گا اور رقم ڈوب جائے گی۔
تنویر ملک کے مطابق: ’سٹیٹ بینک نے دعویٰ کیا ہے کہ زرمبادلہ ذخائر نو اعشاریہ چار ہیں، مگر اصل میں سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ ذخائر تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر ہی رہ گئے ہیں۔ باقی ڈالر بینکز کے پاس عوام کے ہیں۔
’پاکستان پر 130 ارب ڈالر کا قرضہ ہے، جن کی اگلے تین سالوں میں 75 ارب ڈالر کی قسط پاکستان نے واپس کرنی ہے۔ 60 سے 65 ارب ڈالر امپورٹ کے لیے درکار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایسی حالت میں کوئی بھی ملک پاکستان کو مزید قرضہ دینے پر تیار نہیں۔ مگر آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسی عالمی ساکھ رکھنے والے مالیاتی ادارے جب پاکستان کو نیا قرضہ دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے دیگر ملک بھی پاکستان کو قرضہ دے سکتے ہیں۔
’پاکستان ابتدائی طور پر آئی ایم ایف کی شرائط بشمول 200 ارب کے نئے ٹیکس، گیس پیٹرول کی قیمت میں اضافہ اور توانائی سیکٹر میں اصلاحات پر راضی ہوگیا ہے۔ اور جلد ہی آئی ایف کی جانب سے نیا قرضہ دیا جائے گا۔ جس کے بعد ہی دیگر ممالک بھی قرضہ دینے پر رضامند ہوجائیں گے۔‘