صوبائی دارالحکومت پشاور میں پولیس لائنز پر 30 جنوری کے حملے کی سی سی ٹی وی ویڈیو سامنے آنے کے بعد یہ سوال تقویت اختیار کر گیا ہے کہ آخر اس خودکش حملہ آور کا ہدف کیا تھا۔
موٹر سائیکل پر سوار اور پولیس وردی میں ملبوث یہ شخص پولیس لائنز کے اردگرد کافی دیر تک گھومتے پھرتے دیکھا گیا ہے۔ اس کی نقل و حرکت سے لگتا ہے کہ وہ ہدف یا اس مقام کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ نہیں تھا۔
ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے بھی پولیس لائنز مسجد کے دھماکے سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا ہے اور میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کا مساجد اور عوامی مقامات پر دھماکوں کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ تو پھر حملہ آور مسجد کیوں گیا؟
بیان میں ٹی ٹی پی نے لکھا ہے کہ ’ہمارے دستور کے مطابق مساجد، بازاروں، عوامی مقامات اور جنازہ گاہ میں کسی قسم کی کارروائی قابل مواخذہ جرم ہوگی۔ پشاور پولیس لائن دھماکے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ خودکش حملہ آور نے گیٹ سے داخل ہو کر حوالدار سے بات کی اور پوچھا کہ مسجد کہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور کو پولیس والوں نے وردی میں دیکھ کر اس کی تلاشی نہیں لی۔
پشاور میں پولیس کے ہیڈکواٹرز سمجھے جانے والے پولیس لائنز میں پولیس کے علاوہ چھ دیگر محکموں کے سینیئر افسران کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ ان میں سپیشل سروس یونٹ (ایس ایس یو)، کاونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)، ایلیٹ فورس، ایف آر پی، پشاور پولیس اور ٹیلی کمیونیکیشن کے ادارے شامل ہیں۔ ان اداروں کے ڈی آئی جی کے رینک کے افسران کے دفاتر یہاں موجود ہیں۔
حملہ آور کے بارے میں آئی جی کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ دھماکے کے اگلے روز آئی جی معظم جاہ انصاری نے بتایا تھا کہ حملہ آور مہمان کے روپ میں پولیس لائن داخل ہوا تھا اور اس نے کوئی جیکٹ نہیں پہنی تھی۔
تاہم سی سی ٹی وی کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد آئی جی نے بتایا کہ حملہ آور پولیس وردی میں ملبوس تھا اور اس نے جیکٹ اور ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ ویڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے منہ چھپانے کی خاطر ماسک بھی پہن رکھا تھا۔
حملہ کیا کس نے؟
تاہم دھماکے کے تھوڑے دیر بعد سر بکف مہمند کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاونٹ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور ٹویٹ میں لکھا کہ دھماکہ جماعت الحرار کے سابق سربراہ عمر خالد خراسانی کے قتل کا انتقام تھا۔
جس اکاونٹ سے یہ ٹویٹ کیا گیا تھا اسے ٹوئٹر کی جانب سے بعد میں معطل کر دیا گیا۔
پولیس لائن دھماکے کے بارے میں خیبر پختونخوا کے پولیس سربراہ معظم جاہ انصاری نے گذشتہ روز میڈیا کو بتایا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اس دھماکے میں جماعت الحرار کے لوگ ملوث ہوں۔
پولیس سربراہ نے بتایا: ’ٹی ٹی پی کی جانب سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن جماعت الاحرار نے ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے کہ بعض کارروائیاں ٹی ٹی پی نہ کرنے کے باوجود قبول کرتی ہے جبکہ بعض کرنے کے بعد بھی قبول نہیں کرتی۔ ہم اپنے طور پر تحقیق کریں گے اور کسی کی ذمہ داری قبول کرنے اور نہ کرنے پر نہیں جائیں گے۔‘
پولیس لائنز دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے والے سربکف مہمند ٹی ٹی پی سے ماضی میں اختلافات کی وجہ سے علیحدہ دھڑے جماعت الاحرار کے رہنماؤں میں شامل ہیں۔
جماعت الاحرار کی بنیاد ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے عمر خالد خراسانی نے 2014 میں رکھی تھی، جن کو گذشتہ سال افغانسان میں نامعلوم افراد کی جانب سے قتل کیا گیا تھا۔
جماعت الاحرار نے کچھ عرصہ پہلے ٹی ٹی پی کے مرکزی تنظیم کے ساتھ دوبارہ اتحاد کیا تھا اور یہ ٹی ٹی پی کا مضبوط دھڑا سمجھا جاتا ہے اور اس تنظیم کے موجودہ سربراہ مکرم خان مہمند ٹی ٹی پی کے مرکزی شوریٰ کے رکن بھی ہیں۔ ماضی میں مرکزی ٹی ٹی پی کی تنظیم اور جماعت الاحرار کے مابین مختلف معاملات پر اختلاف رہا ہے۔
رسول داوڑ صحافی ہیں اور ٹی ٹی پی کے بننے سے اب تک شدت پسندی کی رپورٹنگ کرتے آرہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے مختلف رہنماؤں کے انٹرویوز بھی ماضی میں کر چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جماعت الاحرار اور مرکزی ٹی ٹی پی کے مابین اختلافات نظریاتی اور پالیسی پر ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی میں دو قسم کے سوچ کی لوگ موجود ہیں۔
رسول داوڑ کے مطابق ایک ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے سوچ کے حامل لوگ ہیں، جو جارحانہ ہیں اور بات چیت پر یقین نہیں رکھتے جبکہ دوسرے جانب ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت کی سوچ ہے جو قدرے نرم رویہ اپناتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’جماعت الاحرار نے زیادہ وقت حکیم اللہ محسود اور ٹی ٹی پی کے ماضی میں سرگرم رکن قاری حسین کے ساتھ گزارا ہے، جو ایگریسیو تھے اور کہتے تھے کہ ایک بار جب اعلان جنگ ہوا ہے تو بس ہوا ہے۔‘
اسی پالیسی پر رسول داوڑ کے مطابق مرکزی ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے مابیین بنیادی اختلاف ہے اور جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی کی موت کے بعد جماعت سے وابستہ افراد مرکزی ٹی ٹی پی پر بھی تنقید کرتے رہے۔
ٹی ٹی پی کی ذمہ داری لینے کی پالیسی کیا ہے؟
رسول داوڑ سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ عوامی مقامات پر دھماکے یا اس طرح کا کوئی دھماکہ جس پر عوامی رد عمل زیادہ آجائے تو اس سے ٹی ٹی پی اظہار لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے۔
ٹی ٹی پی نے ماضی میں بھی کچھ دھماکوں سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا ہے، جس میں 2013 میں پشاور کے قصہ خوانی بازار میں دو یکے بعد دیگرے دھماکے بھی شامل ہیں۔
قصہ خوانی بازار کے دھماکے میں بھی پولیس لائنز دھماکے کی سی صورت حال پیدا ہوگئی تھی کہ اس وقت جنداللہ نامی ایک شخص نے ٹی ٹی پی کے نام سے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن بعد میں ٹی ٹی پی کے اس وقت کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے بیان جاری کیا کہ اس دھماکے سے ٹی ٹی پی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس بیان میں کہا گیا تھا کہ نہ اس دھماکے سے اور نہ جنداللہ نامی کسی شخص سے ٹی ٹی پی کا تعلق ہے اور اگر جنداللہ کے نام کسی کارروائی کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے تو اس کا ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلق نہیں ہوگا۔
اسی طرح 2014 میں آرمی پبلک سکول حملے میں پولیس لائنز اور قصہ خوانی بازار کے دھماکے سے مختلف صورت حال تھی، حالانکہ آرمی پبلک سکول حملے کا ردعمل بہت شدید تھا۔ اس سکول حملے کی ذمہ داری مرکزی ٹی ٹی پی کے ترجمان نے قبول کی تھی۔
انہوں نے صحافیوں کو فون کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سکول کے پرائمری سیکشن کے بچوں کو نہیں نشانہ بنایا گیا بلکہ ہائی سیکشن کے بچوں کو مارا گیا ہے کیوں کہ یہی بچے بڑے ہو کر فوج میں جا کر ٹی ٹی پی کے خلاف لڑیں گے۔
تاہم اس کے بعد جماعت الاحرار کے اس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے آرمی پبلک سکول حملے کی مذمت کی اور بعد میں آرمی پبلک سکول کے حملے سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔
رسول داوڑ نے بتایا کہ آرمی پبک سکول حملے کی مذمت القاعدہ برصغیر نے بھی کی تھی، تاہم مرکزی ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن عمومی طور پر زیادہ ردعمل آنے کے بعد ٹی ٹی پی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ٹی پی نے پولیس لائنز دھماکے سے اظہار لاتعلقی کا اعلان تو کیا ہے تاہم ابھی تک ان کی جانب سے اس بات کی کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔
رفعت اللہ اورکزئی تقریبا 15 سالوں تک بی بی سی اردو کے لیے شدت پسندی کے رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے ٹی ٹی پی نے اپنی ایک پالیسی مرتب کی ہے، جس کا ٹیکسٹ بھی موجود ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی عوامی مقامات، مساجد، جنازہ گاہوں سمیت مدارس پر حملے نہیں کریں گے۔
رفعت نے آرمی پبلک سکول حملے کے حوالے سے بتایا کہ ’حملے کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی کے اس وقت کے ترجمان نے قبول نہیں کی تھی بلکہ پشاور اور درہ آدم خیل شاخوں کے سربراہ خلیفہ عمر منصور نے کی تھی اور اب کچھ بیانات میں ٹی ٹی پی نے آرمی پبک سکول واقعے کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے، حالانکہ اس وقت اس کی ذمہ داری قبل کی گئی تھی۔‘
اسی طرح رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ ماضی میں بھی اس طرح کے عوامی مقامات پر حملوں کا الزام تو ٹی ٹی پی پر عائد کیا جاتا رہا ہے، تاہم ٹی ٹی پی نے باقاعدہ طور پر عوامی مقامات میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہی پالیسی افغان طالبان کی بھی رہی ہے کہ عوامی مقامات پر اگر کوئی حملہ ہوتا تھا تو الزام افغان طالبان پر لگتا تھا لیکن افغان طالبان کی جانب سے عوامی مقامات پر حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی جاتی تھی۔