سائنس دانوں نے ایک نئی قسم کی برف دریافت کی ہے جو ہو سکتا ہے کہ اس بات پر روشنی ڈالے کہ ہم پانی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
اس برف کی کوئی باقاعدہ شکل نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عام برف میں ترتیب کے ساتھ پائے جانے والے مالیکیولز کے مقابلے میں اس نئی برف کے مالیکیول منظم شکل میں نہیں ہیں۔
اس برف جسے ایم ڈی اے (میڈیم ڈینسٹی امورفس آئس) کا نیا نام دیا گیا ہے، برف کی کسی بھی دوسری شکل کے مقابلے میں مائع شکل میں پانی سے زیادہ مشابہہ ہے۔ اس سے سائنس دانوں کو پانی کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن اور یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین نے ’جمعے کو بعد از دوپہر کیے جانے والے ان تجربات جن میں آپ بس تجربہ کرتے اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے، میں ایک تجربے‘ کے دوران غیر متوقع طور پر یہ برف دریافت کی۔
ٹیم نے منفی دو سو درجے سیلسیئس پر ٹھنڈے کیے گئے جار میں عام برف کو فولادی گیندوں کے ساتھ رکھ کر ہلایا۔ عام برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بننے کی بجائے سائنس دانوں کو برف کی وہ شکل ملی جس کی کثافت مائع پانی جیسی تھی۔
خاص بات یہ ہے کہ یہ بے شکل برف خلا میں پائی جانے والی برف کی بڑی قسم ہے کیوں کہ اس کے ٹھنڈے ماحول کا مطلب ہے کہ اس میں کرسٹل بننے کے لیے ضروری حرارتی توانائی نہیں ہے۔ یہ زمین پر کم یاب ہے۔
ایم ڈی اے، جو سفید رنگ کے باریک سفوف کی طرح لگتی ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ نظام شمسی سے باہر برف سے بنے چاندوں کے اندر پائی جاتی ہو۔
سیارہ مشتری اور زحل کی کشش ثقل عام برف پر انہیں قوتوں کا مظاہرہ کر سکتی ہے جیسی گیندوں کے اس تجربے کے دوران پیدا ہوئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ جب برف کو گرم کیا گیا اور دوبارہ کرسٹل بنایا گیا تو اس نے بڑی مقدار میں حرارت خارج کی جو ممکنہ طور پر برف میں لپٹے چاندوں جیسے کہ مشتری کا گینی میڈ نامی چاند، کی سطح میں حرکت اور ’برفانی زلزلے‘ کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ برف کئی کلومیٹر موٹی ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر کرسٹوف سالزمن کہتے ہیں کہ ’پانی تمام زندگی کی بنیاد ہے۔‘
’ہمارے وجود کا انحصار اسی پر ہے۔ ہم اس کی تلاش میں خلائی مشنز بھیجتے ہیں۔ اس کے باوجود مخصوص نقطہ نظر کے تحت اسے اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکا۔
’ہم برف کے 20 اقسام کے کرسٹل کے بارے میں جانتے ہیں لیکن اس سے پہلے بے شکل برف کی صرف اقسام دریافت ہوئیں جنہیں زیادہ اور کم کثافت والی برف کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تحقیق مائع پانی اور اس کی معمول سے ہٹی ہوئی بہت سی اشکال کے بارے میں ہماری فہم کے لیے دور رس نتائج کی حامل ہو۔‘
© The Independent