تازہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ تین لاکھ سال سے زیادہ عرصہ قبل شمالی یورپ میں رہنے والے انسان سخت سردی میں زندہ رہنے کے لیے ریچھ کی کھال استعمال کیا کرتے تھے۔
حال ہی میں جرنل آف ہیومن ایوولوشن نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں جرمنی کے علاقے لوئر سیکسنی میں شوننگن کے آثار قدیمہ کے مقام سے ملنے والی ہڈیوں پر نشانات کا جائزہ لیا گیا اور پتھر کے زمانے کے مقام پر دریافت شدہ غاروں میں رہنے والے ریچھ کی پیر اور انگلیوں کی ہڈیوں کی باقیات پر زخم کے نشانات پائے گئے۔
محققین، جن میں جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹیوبنگن کے لوگ بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ نئی دریافتیں دنیا میں ان ابتدائی انسانی آبا و اجداد سے حاصل ہونے والے اس قسم کے قدیم ترین شواہد میں سے ایک ہیں، جو اس وقت تک جدید لوگوں جیسی جسمانی خصوصیات کے مالک نہیں تھے۔
ٹوبنگن یونیورسٹی کے محقق آئیو وریجن نے وضاحت کی ہے کہ ’نئے دریافت ہونے والے کٹ کے یہ نشانات بتاتے ہیں کہ تقریباً تین لاکھ سال پہلے شمالی یورپ میں لوگ ریچھ کی گرم کھالوں کی بدولت موسم سرما میں زندہ رہنے کے قابل تھے۔‘
اس سے قبل ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ موسم سرما کے کوٹ، خاص طور پر معدوم ہو جانے والے غار میں رہنے والے ریچھوں کے، لمبے بیرونی بالوں جو ایک ہوا دار حفاظتی تہہ بناتے ہیں اور چھوٹے گھنے دونوں قسم کے بالوں سے بنے ہوتے ہیں جو سردیوں میں غیر فعال رہنے کے دوران انتہائی گرم ہوتے ہیں۔
آثار قدیمہ میں ہڈیوں پر موجود کٹ کے نشانات کو عام طور پر گوشت کے استعمال کی علامت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ہاتھ اور پیر کی ہڈیوں پر گوشت مشکل سے ہی پایا گیا۔
ٹوبنگن کی یونیورسٹی کے محقق کے بقول: ’اس کیس میں ہم کٹ کے باریک اور معین نشانات کو احتیاط کے ساتھ کھال اتارنے کے عمل سے منسوب کر سکتے ہیں۔‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پتھر کے قدیم زمانے کا مقام ابتدائی انسانوں اور تب سے شکار کے آغاز کو سمجھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے کیوں کہ ’دنیا کے قدیم ترین نیزے یہیں سے دریافت ہوئے۔‘
عام طور پر جب آثار قدیمہ کے کسی مقام سے صرف بالغ جانور ہی ملتے ہیں، تو ماہرین آثار قدیمہ اسے شکار کا ممکنہ ثبوت سمجھتے ہیں، اور شوننگن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ریچھ کی تمام ہڈیاں اور دانت بالغ جانوروں کے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ ریچھ کی کھال کو اس کی موت کے فوراً بعد اتار لینا ضروری ہے کیوں کہ اس کے بعد بال جھڑ جاتے ہیں اور کھال ناقابل استعمال ہو جاتی ہے۔
وریجن کے بقول: ’چوں کہ جانور کی کھال اتار لی گئی اس لیے وہ اس لمحے تک زیادہ دیر سے مردہ نہ ہو سکتا تھا۔‘
ریچھوں پر پڑے نشانات کا مقام بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان جانوروں کا ان کی کھالوں کے لیے استحصال کیا گیا۔ سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ ایسا ممکنہ طور پر ابتدائی انسانوں کی شمال کی آب و ہوا کے ساتھ کلیدی موافقت کے لیے کیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ریچھ کے ان نمونوں پر کٹ کے بہت باریک نشانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھال اتارنے میں بڑی صفائی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ان نشانات کی پتھر کے دور کے دوسرے مقامات پر کھال اتارنے کے عمل سے مماثلت ہے۔
تحقیق کے ایک مصنف نکلس کونارڈ کہتے ہیں کہ ’لہٰذا ان جانوروں کو خوراک کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ان کی کھالیں سردی میں زندہ رہنے کے لیے ضروری تھیں۔‘
سائنس دانوں نے تحقیق میں لکھا ہے کہ ’ریچھ کی کھال بہت گرم ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے برفانی دور کے وسط کے انسانوں کو شمال مغربی یورپ کے شدید موسم سرما میں زندہ رہنے کے قابل بنایا ہو۔‘
© The Independent